وہ ستم نہ ڈھائے تو کیا کرے اسے کیا خبر کہ وفا ہے کیا؟
تو اسی کو پیار کرے ہے کیوں یہ کلیمؔ تجھ کو ہوا ہے کیا؟
تجھے سنگ دل یہ پتہ ہے کیا کہ دکھے دلوں کی صدا ہے کیا؟
کبھی چوٹ تو نے بھی کھائی ہے کبھی تیرا دل بھی دکھا ہے کیا؟
تو رئیس شہر ستم گراں میں گدائے کوچۂ عاشقاں
تو امیر ہے تو بتا مجھے میں...
ان کی زلفوں میں جتنی شکن چاہیے
ہم کو اتنا ہی دیوانا پن چاہیے
چاہیے ان کو رنگیں قبا اور ہمیں
چاک کرنے کو اک پیرہن چاہیے
یہ بھی ہے ایک سامانِ دل بستگی
کچھ تماشائے دار و رسن چاہیے
میرے جیسے مسافر بہت آئیں گے
ان کے جیسا حسیں راہزن چاہیے
قتل کرنے ہی کا اک سلیقہ سہی
کچھ تو مشہور ہونے کو فن چاہیے...
میرے ہی لہو پر گزر اوقات کرو ہو
مجھ سے ہی امیروں کی طرح بات کرو ہو
دن ایک ستم، ایک ستم رات کرو ہو
وہ دوست ہو، دشمن کو بھی تم مات کرو ہو
ہم خاک نشیں، تم سخن آرائے سرِ بام
پاس آ کے ملو، دُور سے کیا بات کرو ہو
ہم کو جو ملا ہے وہ تمھیں سے تو ملا ہے
ہم اور بھُلا دیں تمھیں، کیا بات کرو ہو
یوں تو...
رات جی کھول کے پھر میں نے دعا مانگی ہے
اور اک چیز بڑی بیش بہا مانگی ہے
اور وہ چیز نہ دولت، نہ مکاں ہے، نہ محل
تاج مانگا ہے، نہ د ستار و قبا مانگی ہے
نہ تو قدموں کے تلے فرشِ گہر مانگا ہے
اور نہ سر پر کلہِ بالِ ہما مانگی ہے
نہ شریک سفر و زاد سفر مانگا ہے
نہ صدائے جرس و بانگِ درا مانگی ہے
نہ...