غزلِ
عالمتاب تشنہ
کیا کہا، پھر تو کہو، دِل کی خبر کچھ بھی نہیں
پھر یہ کیا ہے، خمِ گیسو میں اگر کچھ بھی نہیں
آنکھ پڑ تی ہے کہیں، پاؤں کہیں پڑتے ہیں
سب کی ہے تم کو خبر، اپنی خبر کچھ بھی نہیں
شمع ہے، گل بھی ہے، بلبل بھی ہے پروانہ بھی !
رات کی رات یہ سب کچھ ہے، سحر کچھ بھی نہیں
حشر کی دُھوم،...
مری دسترس میں ہے گر قلم، مجھے حسنِ فکر و خیال دے
مجھے تاجدارِ سخن بنا، مجھے اعتبارِ کمال دے
مری شاخِ شعر رہے ہری، دے مرے سخن کو صنوبری
مری جھیل میں بھی کنول کھِلا، مری گُدڑیوں کو بھی لعل دے
تری بخششوں میں ہے سروری، ہو عطا مجھے بھی قلندری
جو اُٹھے تو دستِ دعا لگے، مجھے ایسا دستِ سوال دے
رگِ...
گنتی میں بے شمار تھے، کم کر دیے گئے
ہم ساتھ کے قبیلوں میں ضم کر دیے گئے
پہلے نصابِ عدل ہُوا ہم سے انتساب
پھر یوں ہُوا کہ قتل بھی ہم کر دیے گئے
پہلے لہو لہان کیا ہم کو شہر نے
پھر پیرہن ہمارے علَم کر دیے گئے
پہلے ہی کم تھی قریۂ جاناں میں روشنی
اور اس پہ کچھ چراغ بھی کم کر دیے گئے
اِس شہرِ نا...
سودا ہمارے سر میں تجھے چاہنے کا تھا
عہدِ شروعِ عشق بھی کس معرکے کا تھا
محرومِ پیش رفت رہے ہم سے خوش خرام
دشتِ زیاں میں اپنا سفر دائرے میں تھا
پیمائشِ سفر نے کئے حوصلے تمام
ہر سنگِ میل، سنگ مرے راستے کا تھا
میں خود پہ ہنس رہا تھا زمانے کے ساتھ ساتھ
وہ مرحلہ بھی عشق میں کس حوصلے کا...
سفر میں راہ کے آشوب سے نہ ڈر جانا
پڑے جو آگ کا دریا تو پار کر جانا
یہ اک اشارہ ہے آفات ناگہانی کا
کسی جگہ سے پرندوں کو کوچ کر جانا
یہ انتقال ہے دشت بلا سے بادل کا
سمندروں پہ برستے ہوئے گزر جانا
تمہارا قرب بھئی دوری کا استعارہ ہے
کہ جیسے چاند کا تالاب میں اتر جانا
ہر اک نفس پہ گزرتا ہے...
سفر میں راہ کے آشوب سے نہ ڈر جانا۔
سفر میں راہ کے آشوب سے نہ ڈر جانا
پڑے جو آگ کا دریا تو پار کر جانا
یہ اک اشارہ ہے آفاتِ ناگہانی کا
کسی جگہ سے پرندوں کا کوچ کرجانا
یہ انتقام ہے دشتِ بلا سے بادل کا
سمندروں پہ برستے ہوئے گزر جانا
تمھارا قُرب بھی دُوری کا استعارہ ہے
کہ جیسے چاند کا تالاب...