وہ ہنسنے کو تو ہنس رہا ہوئے گا
مگر حال اس کا برا ہوئے گا
مرا اس سے جو فاصلہ ہوئے گا
مجھے بھی نہ اس کا پتا ہوئے گا
وہ لمحہ جو امسال رک کر ملا
خدا جانے کب کا چلا ہوئے گا
جسے میرے ایماں کا بھی علم ہے
وہ جھوٹا نہیں تو خدا ہوئے گا
جمائی ہے سرخی جو اخبار نے
سنا اس کو، تیرا بھلا ہوئے گا
وہ آئے گا...
چوہدری محمد علی مضطرؔ کے ایک دو غزلے کی دوسری غزل
پھر کوئی طرفہ تماشا کر دے
میں بُرا ہوں، مجھے اچھا کر دے
کہیں ایسا نہ ہو کوئی لمحہ
تجھ کو چھو کر تجھے تنہا کر دے
لفظ مر جائے اگر بچپن میں
اس کا وارث کوئی پیدا کر دے
بخش دے میری علامت مجھ کو
میرے سر پر مرا سایہ کر دے
رنگ و بُو بانٹ دے اس سے لے...
چوہدری محمد علی مضطرؔ کے ایک دو غزلے کے سلسلے کی پہلی غزل
دل دیا ہے تو پھر اتنا کر دے
اِس کو کچھ اور کشادہ کر دے
بھر نہ جائے کہیں سہلانے سے
زخم کو اور بھی گہرا کر دے
کہیں ایسا نہ ہو میرا سایہ
تیری تصویر کو دھندلا کر دے
پھر پسِ پردۂ گردِ ایّام
کوئی لمحہ نہ اشارہ کر دے
میں ہوں شرمندۂ خوابِ...
کانٹے ہیں اور پاؤں میں چھالے پڑے ہوئے
پیاسوں کے درمیاں ہیں پیالے پڑے ہوئے
آندھی بھی ہے چڑھی ہوئی، نازک ہے ڈور بھی
کچھ پیچ بھی ہیں اب کے نرالے پڑے ہوئے
اترا تھا چاند شہرِ دل و جاں میں ایک بار
اب تک ہیں آنگنوں میں اجالے پڑے ہوئے
رہزن کو بھی فرار کا رستہ نہ مل سکا
چاروں طرف تھے قافلے والے پڑے...