جام شرمائے، صراحی کو پسینہ آگیا
آپ کو بھی بات کرنے کا قرینہ آگیا
آ ترے ایمان کو پھولوں کے رس میں غسل دوں
محتسب! برسات کا رنگیں مہینہ آگیا
مڑ کے دیکھا تھا کہ دریا ایک قطرہ بن گیا
آنکھ جھپکی تھی کہ ساحل پر سفینہ آگیا
ہائے اُن مخمور آنکھوں کی پشیمانی کا حسن
میں نے یہ سمجھا بہاروں کو پسینہ آگیا...
غزل
(عبد الحمید عدم)
مطلب معاملات کا کچھ پا گیا ہوں میں
ہنس کر فریب چشم کرم کھا گیا ہوں میں
بس انتہا ہے چھوڑیئے بس رہنے دیجئے
خود اپنے اعتماد سے شرما گیا ہوں میں
ساقی ذرا نگاہ ملا کر تو دیکھنا
کمبخت ہوش میں تو نہیں آ گیا ہوں میں
شاید مجھے نکال کے پچھتا رہے ہوں آپ
محفل میں اس خیال سے پھر آ...
ساقی غمِ زمانہ کو دُشنام چاہئے
اور میں مجھے تو صرف ترا نام چاہئے
اک عُمر ہے برستشِ یزداں کے واسطے
دو چار دن پرستشِ اصنام چاہئے
یہ مانتا ہوں میں کہ شبِ نو بہار میں
زلفِ دراز و عارضِ گلفام چاہئے
لیکن کسی کو گھر میں بلانے کے واسطے
رطّلِ شراب و شکلِ در و بام چاہئے
ساقی مجھے شراب کی تہمت...
ہے عقل یوں ہراس و گماں سے بھری ہوئی
جیسے ہرن کی آنکھ ازل سے ڈری ہوئی
جانے تری نگاہ نے سمجھا تھا کیا اسے
دل خوں کی ایک بوند تھی وہ بھی مری ہوئی
ہے زیست اک بسیط خلا جس کے اس طرف
پھولوں کے تخت پر ہے صراحی دھری ہوئی
انسانیت سے جس نے بشر کو گرا دیا
یا رب وہ بندگی ہوئی یہ ابتری ہوئی !
دل میں...
بے کیفیِ حیات میں کیوں مل گئے ہو تم
ایسی سیاہ رات میں کیوں مل گئے ہو تم
میں حادثاتِ زیست پہ کچھ کر رہا تھا غور
آشوبِ حادثات میں کیوں مل گئے ہو تم
تم سے تو راہِ صدق میں ملنے کا قول تھا
راہِ تکلفات میں کیوں مل گئے ہو تم
اس سرمدی حیات میں ملتے تو بات تھی
اس عارضی حیات میں کیوں مل گئے ہو تم...
وقت اُس حسیں کے پاس کچھ اتنا قلیل تھا
قصّہ اک آہ میں بھی سمٹ کر طویل تھا
عہدِ بہار تھا کہ کوئی وحشتِ حسیں
جس پھول کو ٹٹول کے دیکھا علیل تھا
موت آئی اور دیکھ کے واپس چلی گئی!
جو تھا وہ زندگی کی ادا کا قتیل تھا
میں میکدے کی راہ سے ہو کر نکل گیا!
ورنہ سفر حیات کا کافی طویل تھا
سمجھی نہ گو...
ہائے کس ، ڈھب کی بات ہوتی ہے
گیسو و لب کی بات ہوتی ہے
جانِ من کب کا ذکر کرتے ہو
جانِ من کب کی بات ہوتی ہے
آپ اکثر جو ہم سے کرتے ہیں
وہ تو مطلب کی بات ہوتی ہے
آؤ تھوڑا سا نور لے جاؤ
ماہ و کو کب کی بات ہوتی ہے
جب بھی ہوتا ہے دن کا ذکر عدمؔ
ساتھ ہی شب کی بات ہوتی ہےعبد الحمید عدم
کسی کے لب پہ جب اس بے وفا کا نام آتا ہے
طبیعت کو بڑا تکلیفِ دہ آرام آتا ہے
نگاہِ بے محابا ڈال دے ادراکِ ہستی پر
کہ میری میکشی پر ہوش کا الزام آتا ہے
محبت کے فسانے کی بناوٹ ہی کچھ ایسی تھی
اِدھر آغاز ہوتا ہے، اُدھر انجام آتا ہے
بڑی تاخیر سے تسکین کے اسباب بنتے ہیں
بڑی تکلیف سے ساقی لبوں...
محبت کو کہاں فکرِ زیان و سود ہوتا ہے
یہ دروازہ ہمارے شہر میں مسدود ہوتا ہے
مرے احساس کی تخلیق ہے جو کچھ بھی ہے ساقی
جسے محسوس کرتا ہوں وہی موجود ہوتا ہے
یہاں تک کھنچ لائی ہے مروّت غمگساروں کی
کہ اب جو درد اُٹھتا ہے وہ لامحدود ہوتا ہے
خرد بھی زندگی کی کہکشاں کا اک ستارہ ہے
مگر یہ وہ ستارہ ہے...
خلوصِ کفر سے ایماں کدہ ایجاد ہوتا ہے
سُنا ہے دل کے مندر میں خدا آباد ہوتا ہے
جنوں کے زیرِ سایہ زندگی پروان چڑھتی ہے
یہ وہ موسم ہے ہر رُت میں گلُِ ایجاد ہوتا ہے
یہاں کیا فائدہ اے دوست جوئے شیر لانے سے
یہاں ہر روز خونِ محنتِ فرہاد ہوتا ہے
بسا اوقات تیری یاد بھی تسکین نہیں دیتی
بسا اوقات تو دل...
ساز آتے ہیں جام آتے ہیں
کیسے کیسے مقام آتے ہیں
تم نے آئے تو کوئی بات نہیں
لوگ لوگوں کے کام آتے ہیں
ایسے آتی ہیں یاد وہ زلفیں !
جیسے لمحاتِ شام آتے ہیں
چند لوگوں سے کچھ عقیدت تھی
چند لوگوں کے نام آتے ہیں
جب بھی آتے ہیں وہ عدم دل میں!
کتنے محشر خرام آتے ہیںعبد الحمید عدم
یہ الگ بات ہے ساقی کہ مجھے ہوش نہیں
ورنہ میں کچھ بھی ہوں احسان فراموش نہیں
نگہتِ گل بھی ہے! اک وحشتِ نازک کی مثال
بارِ ہستی سے کوئی چیز سبکدوش نہیں
آہ وہ قرب کہ ہے دورئِ افزوں کی دلیل
ہائے وہ وصل کے آغوش در آغوش نہیں
اس مروّت سے وہ معبود ہوا ہے عریاں
مجھ کو آدابِ عبادت کا بھی کچھ ہوش...
صبحِ ازل ہی آپ کی نیّت خراب تھی
میرے لئے کچھ اور نہیں تھا شراب تھی
میں آج اعتدال کی حد سے گزر گیا
ساقی خطا معاف طبیعت خراب تھی
جو ظلم تھا وہ حسبِ سلیقہ درست تھا
جو بات تھی وہ اپنی جگہ لاجواب تھی
کیوں التفاتِ زیست کا احساں نہ مانیئے
ہستی ہوئی سی ایک شبِ ماہتاب تھی
مجبور ہو کے شیشہِ مے...
ہمجولیوں کے ساتھ جوانی کی رات تھی
پھولوں کا تذکرہ تھا ستاروں کی بات تھی
میں نے ہر ایک چیز کو اپنا سمجھ لیا
مجھ کو خبر نہ تھی یہ تری کائنات تھی
کلیوں کے اضطراب سے اُرتا ہے رنگِ گل
پچھلی بہار میں بھی کچھ ایسی ہی بات تھی
اپنا تو زندگی سے تعلق نہ تھا کوئی
تیری نگاہِ صرف کفیلِ حیات تھی...
بہت سے لوگوں کو غم نے جلا کے مار دیا
جو بچ رہے تھے انہیں مے پلا کے مار دیا
یہ کیا ادا ہے کہ جب ان کی برہمی سے ہم
نہ مر سکے تو ہمیں مسکرا کے مار دیا
نہ جاتے آپ تو آغوش کیوں تہی ہوتی
گئے تو آپ نے پہلو سے جا کے مار دیا
مجھے گلہ تو نہیں آپ کے تغافل سے
مگر حضور نے ہمت بڑھا کے مار دیا
نہ آپ...
اس کو کہتے ہیں اچانک ہوش میں آنے کا نام
رکھ دیا دانش کدہ، رندوں نے میخانے کا نام
حُور ہے، رعنائیِ نسواں کا اک نقلی لباس
خلد ہے، زاہد کے دانستہ بہک جانے کا نام
آپ پر بھی وار ہو دل کا، تو پوچھیں آپ سے
عشق بیماری کا غلبہ ہے کہ افسانے کا نام
بے رُخی کیا ہے؟ لگاوٹ تیز کرنے کا عمل
دلبری کیا ہے؟...
ساقی شراب لا کہ طبیعت اداس ہے
مطرب رباب اٹھا کہ طبیعت اداس ہے
چبھتی ہے قلب و جاں میں ستاروں کی روشنی
اے چاند ڈوب جا کہ طبیعت اداس ہے
شاید ترے لبوں کی چٹک سے ہو جی بحال
اے دوست مسکرا کہ طبیعت اداس ہے
ہے حسن کا فسوں بھی علاج فسردگی
رُخ سے نقاب اٹھا کہ طبیعت اداس ہے
میں نے کبھی یہ ضد تو...
میں جس جگہ ہوں مجھ کو وہاں سے بلا تو دے
ظالم قریب آ کے کسی دن صدا تو دے
اتنی تو قدر کر میرے حال خراب کی
تفریح کے لیے ہی ذرا مسکرا تو دے
یہ اور بات ہے کہ محبت نہیں تجھے
تا ہم ستم ظریف محبت جتا تو دے
دکھتے ہوے مزاج کی تالیف کے لیے
جلتے ہوے حواس میں ٹھنڈک بسا تو دے
شاید کمی ذرا سی اندھیروں...