غزل
(عبداللہ جاوید)
سمندر پار آبیٹھے، مگر کیا
نئے ملکوں میں بن جاتے ہیں گھر کیا
نئے ملکوں میں لگتا ہے نیا سب
زمیں کیا، آسماں کیا، اور شجر کیا
اُدھر کے لوگ کیا کیا سوچتے ہیں
اِدھر بستے ہیں خوابوں کے نگر کیا
ہر اک رستے پہ چل کر سوچتے ہیں
یہ رستہ جارہا ہے اپنے گھر کیا
کبھی...