غزل
غم کے ہاتھوں جو مِرے دِل پہ سماں گُذرا ہے
حادثہ ایسا ، زمانے میں کہاں گُذرا ہے
زندگی کا ہے خُلاصہ، وہی اِک لمحۂ شوق !
جو تِری یاد میں، اے جانِ جہاں ! گُذرا ہے
حالِ دِل غم سے ہے جیسے کہ، کسی صحرا میں!
ابھی اِ ک قافلۂ نوحہ گراں گُذرا ہے
بزمِ دوشیں کو کرو یاد،کہ اُس کا ہر رِند
رونقِ بارگۂ...
غزل
جو مُشتِ خاک ہو، اِس خاکداں کی بات کرو
زمِیں پہ رہ کے، نہ تم آسماں کی بات کرو
کسی کی تابشِ رُخسار کا ، کہو قصّہ!
کسی کی، گیسُوئے عنبر فِشاں کی بات کرو
نہیں ہُوا جو طُلوُع آفتاب، تو فی الحال !
قمر کا ذکر کرو، کہکشاں کی بات کرو
رہے گا مشغلۂ یادِ رفتگاں کب تک؟
گُزر رہا ہے جو ، اُس...
عبدالمجید سالک
چراغِ زندگی ہوگا فروزاں، ہم نہیں ہونگے
چمن میں آئے گی فصلِ بہاراں، ہم نہیں ہونگے
جوانوں اب تمھارے ہاتھ میں تقدیرِ عالَم ہے
تمہی ہو گے فروغِ بزمِ اِمکاں، ہم نہیں ہونگے
جئیں گے وہ جو دیکھیں گے بہاریں زُلفِ جاناں کی
سنوارے جائیں گے گیسوئے دَوراں، ہم نہیں ہونگے
ہمارے ڈُوبنے...
مولانا عبدالمجید سالک نے اپنی خودنوشت سوانح "سرگزشت" میں انجمنِ حمایت اسلام، لاہور کے ایک جلسے کا ایک دلچسپ واقعہ لکھا ہے، ملاحظہ کیجیے۔
"خواجہ دل محمد اور ڈپٹی نذیر احمد
اس اجلاس میں ایک بہت دلچسپ واقعہ ہوا، جو مجھے اب تک یاد ہے۔ خواجہ دل محمد صاحب ان دنوں کوئی انیس بیس سال کے نوجوان تھے...