غزل
ہے وہی مزاجِ صحرا، وہی ریت جل رہی ہے
نہ یہ جسم موم کا ہے، نہ یہ دھوپ ہی نئی ہے
وہ الگ ہی آسماں ہے، کوئی اور ہے زمیں بھی
جہاں فکر میں مری ماں، مری راہ دیکھتی ہے
یہ جو پیڑ جل رہا ہے، کڑی دھوپ میں مسلسل
یہی میرا استعارہ، یہی میری زندگی ہے
یہ جو پیاس کی ہے شدت، ہے یہی عطائے صحرا...
غزل
بجا کہتے ہو تم، اچھا نہیں ہوں
میں جو کچھ ہوں مگر دھوکا نہیں ہوں
نسیمِ نرم بھی سایہ صفت بھی
فقط جلتا ہوا صحرا نہیں ہوں
ترا غم ہوں مثالِ اشکِ لرزاں
مگر میں آنکھ سے چھلکا نہیں ہوں
بدن میں پڑتی جاتی ہیں دراڑیں
ابھی تک ٹوٹ کہ بکھرا نہیں ہوں
بُھلا دوں اُن کو یہ کیسے ہے ممکن...
غزل
اگرچہ گردِ سفر ہے باقی، بدن تھکن کے حصار میں ہے
مگر یہ وحشت نئے سفر کی طوالتوں کے خمار میں ہے
رواں دواں ہوں نفس نفس میں، اُسی کی جانب، وہی ہے منزل
وہ اک بُلاوا کہ سُن رہا ہوں، جو بے صدا اک پُکار میں ہے
خزاں کی یرقاں گزیدگی میں سبھی گل و برگ مر گئے ہیں
یہ خوش گماں کون ہے ابھی تک کہ جو...
منصفی جب بے حسی بن جائے گی
زندگی پھر موت ہی بن جائے گی
اک دیا مجھمیں کہیں جل جائیگا
تیرگی خود روشنی بن جائے گی
نرگسی آنکھوں میں ڈوبےگا خیال
سوچ، اک تصویر سی بن جائے گی
تازہ دم رکھتی ہے جو اک جستجو
حاصلِ واماندگی بن جائے گی
پھر کسی کا خون بہےگا،اور خبر
دفتری خانہ پری بن جائے...
بند کوزے میں اگر چاہو سمندر دیکھنا
وحشتوں کا رقص میرے دل کے اندر دیکھنا
شکر کرنا تم، زباں پر تو کوئی قدغن نہیں
پاؤں کی زنجیر جب اپنا مقدر دیکھنا
سوچنا کیوں اس قدر تم سے محبت ہے ہمیں
تیرگی میں اک دیا تم بھی جلا کر دیکھنا
ذہن کی حدِ رسا تک بس اسی کو سوچنا
صرف اس کو پتلیوں کے آئینے پر...
مجھ پہ اے میرے خدا اور بھی احساں کر دے
ہیں جو بیمار سے چہرے انھیں شاداں کر دے
مثلِ حشراتِ زمیں یوں نہ بنا ان کو خدا
تو نے انسان بنایا ہے تو انساں کر دے
میرے مالک تری قدرت ہے ہر شے کو محیط
تو جو چاہے کسی ما یوس کو حیراں کر دے
تو ہی مظلوم کی طاقت، تو ہی بے بس کا یقیں
ہر دکھی دل کے لیئے...
غزل
اک تھکا ماندہ مسافر، وہ صحرا، وہی دھوپ
پھر وہی آبلہ پائی، وہی رستہ، وہی دھوپ
میں وہی رات، بہ عنوانِ سکوں، سازِ خاموش
تو وہی چاند سراپا، ترا لہجہ وہی دھوپ
پھر کتابوں کی جگہ بھوک، مشقت، محنت
پھر وہی ٹاٹ بچھونا، وہی بچہ، وہی دھوپ
میں شجر سایہ فگن سب پہ عدو ہوں کہ سجن
میرا ماضی...
غزل
عمرِ آخر میں سبھی اُس سے خفا ہونے لگے
رفتہ رفتہ پیڑ سے پتے جُدا ہونے لگے
شور اتنا تھا سماعت میں دراڑیں پڑ گئیں
ایسا سناٹا کہ سانس اپنی صدا ہونے لگے
اک دیا ہم نے جلا کر اُن کو بھی ترغیب دی
وہ دیا تو کیا جلاتے خود ہوا ہونے لگے
اِن دنوں میرا بدن زخموں سے کیوں محفوظ ہے
کیا نشانے...