غزل
اپنی ناکام تمنّاؤں کا ماتم نہ کرو
تھم گیا دَور ِمئے ناب تو کُچھ غم نہ کرو
اور بھی کتنے طرِیقے ہیں بیانِ غم کے
مُسکراتی ہُوئی آنکھوں کو تو پُر نم نہ کرو
ہاں یہ شمشِیر حوادِث ہو تو کُچھ بات بھی ہے
گردنیں طوقِ غُلامی کے لیے خَم نہ کرو
تم تو ہو رِند تمھیں محفل ِجم سے کیا کام
بزم ِجم ہو گئی...
غزل
(عبدالعزیز فطرت)
ہر چند بستہ چشم رہا بستہ لب رہا
میں مدتوں نشانہء تیرِ غضب رہا
غیروں پہ لطف کا بھی بتایا گیا جواز
مجھ پر ترا ستم بھی مگر بے سبب رہا
تونے جو کچھ دیا وہ دیا لطفِ خاص سے
پابندِ آستیں مِرا دستِ طلب رہا
اس بزم میںنگاہ پہ قابو نہ رکھ سکا
ہاں مجھ کو اعتراف ہے میںبے ادب رہا...
غزل
(عبدالعزیز فطرت)
وہ پرسشِ حال کو آئیں گے بیمار کو یہ خوش فہمی ہے
جذبات کی بے رونق دنیا میں کتنی گہما گہمی ہے
اے گردشِ ساغر گردش دور فلک سے مجھ کو خوف نہیں
ایّام کے چکر سے ڈرنا ناشکری ہے نافہمی ہے
حوروں سے یہ جی بہلائے گا کوثر سے یہ جام اُڑائے گا
میں شیخ کو خوب سمجھتا ہوں - پرلے درجے کا...
غزل
(عبدالعزیز فطرت)
دو دن کے لئے جذبات کی دنیا میں گہما گہمی ہی سہی
دُنیا ہمیں وہمی کہتی رہے عاشق نہ سہی وہمی ہی سہی
ساقی کی نگاہ سے میں نے جو مطلب پانا تھا پا ہی لیا
زاہد کی نگاہ میں یہ میری خوش فہمی ہے خوش فہمی ہی سہی
میں گردشِ دوراں سے بھاگا اور سایہ ء ساغر میں پہنچا
منزل تو ہے نظروں...