غزل
چِھن گئی درد کی دولت کیسے
ہوگئی دِل کی یہ حالت کیسے
پُوچھ اُن سے جو بِچھڑ جاتے ہیں
ٹوُٹ پڑتی ہے قیامت کیسے
تیری خاطر ہی یہ آنکھیں پائیں
میں بُھلا دُوں تِری صُورت کیسے
اب رہا کیا ہے مِر ے دامن میں
اب اُسے میری ضرورت کیسے
کاش مجھ کو یہ بتا د ے کوئی !
لوگ کرتے ہیں محبّت کیسے
عدیم ہاشمی
ہمراہ لیے جاؤ مِرا دیدہء تَر بھی
جاتے ہو سفر پر تو کوئی رختِ سفر بھی
بھیجے ہیں تلاطم بھی کئی اور بھَنور بھی
اے بحرِ سُخن، چند صدف، چند گہر بھی
پھر آنکھ وہیں ثبت نہ ہو جائے تو کہنا
پڑ جائے اگر اُس پہ تِری ایک نظر بھی
درکار ہے کیا آپ کو اشکوں کی دُکاں سے
جلتی ہوئی شمعیں بھی ہیں، کچھ دیدہء تر...
گُم اپنی محبت میں دونوں، نایاب ہو تم نایاب ہیں ہم
کیا ہم کو کُھلی آنکھیں دیکھیں، اِک خواب ہو تم اِک خواب ہیں ہم
کیا محشر خیز جُدائی ہے، کیا وصل قیامت کا ہو گا
جذبات کا اِک سیلاب ہو تم، جذبات کا اِک سیلاب ہیں ہم
آنکھیں جو ہیں اپنے چہرے پر، اِک ساون ہے اِک بھادوں ہے
اے غم کی ندی تو فکر نہ کر،...
اُڑ کر کبُوتر ایک سرِ بام آ گیا
مجھ کو یہی لگا ترا پیغام آ گیا
میں گِن رہا تھا آج پُرانی محبتیں
ہونٹوں پہ آج پھر سے ترا نام آ گیا
رکھا تھا ہاتھ نبض پہ چُھونے کے واسطے
اُس نے یہ کہہ دیا ، مجھے آرام آ گیا
احساں کا ڈھنگ ڈھونڈتے پھرتے رہے عزیز
جو یار تھا عدیم، مرے کام آ گیا
وہ اِک نظر...
جلتا رہا ہوں رات کی تپتی چٹان پر
سُورج تھا جیسے، چاند نہ تھا آسمان پر
اِک روگ ہے کہ جاں کو لگا ہے اُڑان کا
ٹُوٹا ہوا پڑا ہوں پروں کی دُکان پر
میں راستوں میں اُس کا لگاؤں کہاں سُراغ
سو سو قدم ہیں، ایک قدم کے نِشان پر
بادل کو چُومتی رہیں پُختہ عمارتیں
بجلی گِری تو شہر کے کچے مکان پر...
حیراں ہوں زِندگی کی انوکھی اُڑان پر
پاؤں زمین پر ہیں ، مزاج آسمان پر
آتا نہیں یقین کِسی کی زُبان پر
بادل کا ہو رہا ہے گماں بادبان پر
کِرنوں کے تِیر چلنے لگے ہیں جہان پر
بیٹھا ہوا ہے کون فلک کی مچان پر
یہ زخم تو مِلا تھا کِسی اور سے مجھے
کیوں شکل تیری بننے لگی ہے نِشان پر
اِتنے سِتم...
شبِ ہجراں تھی جو بسَر نہ ہوئی
ورنہ کِس رات کی سحر نہ ہوئی
ایسا کیا جرم ہو گیا ہم سے
کیوں ملاقات عُمر بھر نہ ہوئی
اشک پلکوں پہ مُستقل چمکے
کبھی ٹہنی یہ بے ثمر نہ ہوئی
تیری قُربت کی روشنی کی قسم
صُبح آئی مگر سحر نہ ہوئی
ہم نے کیا کیا نہ کر کے دیکھ لیا
کوئی تدبیر کار گر نہ ہوئی
کتنے...
غزل کو پھر سجا کے صُورتِ محبوب لایا ہوں
سُنو اہلِ سُخن! میں پھر نیا اسلُوب لایا ہوں
کہو، دستِ محبت سے ہر اِک در پر یہ دستک کیوں
کہا ، سب کے لیے میں پیار کا مکتُوب لایا ہوں
کہو، کیا داستاں لائے ہو دل والوں کی بستی سے
کہا، اِک واقعہ میں آپ سے منسُوب لایا ہوں
کہو ، یہ جسم کِس کا، جاں کِس...
اُس نے کہا، ہم آج سے دلدار ہو گئے
سب لوگ اُس کے دل کے طلبگار ہو گئے
اُس نے کہا کہ ایک حسیں چاہیے مجھے
سارے ہی لوگ زینتِ بازار ہو گئے
اُس نے کہا کہ صاحبِ کردار ہے کوئی
اِک پل میں لوگ صاحبِ کردار ہو گئے
اُس نے کہا کہ مجھے مِری تعمیر چاہیے
جو خشت وسنگ بار تھے ، معمار ہو گئے
اُس نے کہا،...
ہم بہرحال دل و جاں سے تمہارے ہوتے
تم بھی اِک آدھ گھڑی کاش ہمارے ہوتے
عکس پانی میں محبت کے اُتارے ہوتے
ہم جو بیٹھے ہوئے ، دریا کے کنارے ہوتے
جو مہ و سال گزارے ہیں بچھڑ کر ہم نے
وہ مہ و سال اگر ساتھ گزارے ہوتے
کیا ابھی بیچ میں دیوار کوئی باقی ہے
کونسا غم ہے بھلا تم کو ہمارے ہوتے
آپ تو...
زندگی پاؤں نہ دَھر جانبِ انجام ابھی
مرے ذمے ہیں ادُھورے سے کئی کام ابھی
ابھی تازہ ہے بہت گھاؤ بچھڑ جانے کا
گھیر لیتی ہے تری یاد سرِشام ابھی
اِک نظر اور اِدھر دیکھ مسیحا میرے
ترے بیمار کو آیا نہیں آرام ابھی
رات آئی ہے تو کیا ، تم تو نہیں آئے ہو
مری قسمت میں کہاں لِکھا ہے آرام ابھی
جان...
ہلے نہ ہونٹ ترے قُرب کے بیاں کے لیے
یہ ذائقہ ہی نیا ہے مری زباں کے لیے
میں کون کون سے دیوار و دَر کو یاد کروں
دھڑک رہا ہے مرا دل تو ہر مکاں کے لیے
کہاں لکھوں کہ نہ پہنچے جہاں یہ وقت کا ہاتھ
قدم کہاں پہ دھروں دائمی نشاں کے لیے
نہ اب وہ اپنی تمنا، نہ اب وہ خواہشِ خاص
میں جی رہا ہوں یہ کس...
تر بہ تر اے چشم تجھ کو کر چلے
کم سے کم تیرا تو دامن بھر چلے
ساتھ اپنے کچھ نہیں لے کر چلے
سب یہاں کا تھا، یہیں پر دَھر چلے
ہوتے ہوتے اور ہی کچھ ہو گیا
کرتے کرتے اور ہی کچھ کر چلے
رہ گیا باقی چراغوں کا دُھواں
لوگ اُٹھ کر اپنے اپنے گھر چلے
پانچویں تو سمت ہی کوئی نہیں
تِیر چاروں سمت سے دل پر...
پھر جُدائی، پھر جئے، پھر مر چلے
لیکن اپنے دل کی جھولی بھر چلے
بڑھ رہی ہیں خواہشیں دل کی طرف
جیسے حملے کے لیے لشکر چلے
اِنتظار اور اِنتظار اور اِنتظار
کیسے کیسے مرحلے سَر کر چلے
زندگی ساری گزاری اِس طرح
جس طرح رسّی پہ بازی گر چلے
وہ مَسل دے یا اُٹھا کر چُوم لے
پُھول اُس دہلیز پر ہم دَھر...
اچھی ہے دوستوں سے شِکایت کبھی کبھی
بڑھتی ہے اِس طرح بھی محبت کبھی کبھی
پہچان ہو گئی کئی لوگوں کی اِس طرح
آئی ہے کام یُوں بھی ضرُورت کبھی کبھی
ہوتے ہیں قُربتوں میں بھی محشر کئی بپَا
آتی ہے وصل میں بھی قیامت کبھی کبھی
پھر ایک بےپناہ سی شِدت کے واسطے
قُربان ہم نے کی تری قُربت کبھی کبھی
یُوں...
شامِل تھا یہ سِتم بھی کسی کے نصاب میں
تِتلی ملی حنُوط پُرانی کتاب میں
دیکھوں گا کِس طرح سے کسی کو عذاب میں
سب کے گناہ ڈال دے میرے حساب میں
پھر بے وفا کو بحرِ محبت سمجھ لیا
پھر دل کی ناؤ ڈُوب گئی ہے سرَاب میں
پہلے گلاب اُس میں دِکھائی دیا مجھے
اب وہ مجھے دِکھائی دیا ہے گلاب میں
وہ رنگِ آتشیں،...
کون بدلے گا تغزّل کی فضا میرے بعد
کون آندھی میں جلائے گا دِیا میرے بعد
مجھ سے بہتر تو ہوئے شعلہ نوا میرے بعد
میرے جیسا نہ کوئی اور ہوا میرے بعد
کون ہونٹوں سے کرئے گا تری راہوں کو سلام
کون چُومے گا یہ نقشِ کفِ پا میرے بعد
کون بن جائے گا مہتاب ِبرہنہ پہ گھٹا
کون ڈھانپے گا تجھے مثلِ قبا میرے بعد...
نہ کوئی رنگ نہ ہاتھوں میں حنا میرے بعد
وہ مکمل ہی سیہ پوش ہُوا میرے بعد
لےکے جاتا رہا ہر شام وہ پھُول اور چراغ
بس یہی اُس نے کیا، جتنا جیا میرے بعد
روز جا کر وہ سمندر کے کنارے چُپ چاپ
ناؤ کاغذ کی بہاتا ہی رہا میرے بعد
اُس کے ہونٹوں سے مرا نام نکل جاتا تھا
جس نے اپنایا اُسے ،چھوڑدیا میرے بعد...
فاصلے ایسے بھی ہونگے یہ کبھی سوچا نہ تھا
سامنے بیٹھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھا
وہ کہ خوشبو کی طرح پھیلا تھا میرے چار سو
میں اسے محسوس کر سکتا تھا چھو سکتا نہ تھا
رات بھر پچھلی ہی آہٹ کان میں آتی رہی
جھانک کر دیکھا گلی میں کوئی بھی آیا نہ تھا
عکس تو موجود تھا پر عکس تنہائی کا تھا
آئنہ تو...