پھر بھی بیٹھی ہے خزاں باغ کی دیوار کے ساتھ
جبکہ پتاّ بھی نہیں ہے کوئی اشجار کے ساتھ
کچھ تعلق تو نہیں تھا مرا بیمار کے ساتھ
پھر بھی دل ڈوب گیا شام کے آثار کے ساتھ
کس نے چمکایا ہے سورج مری دیوار کے ساتھ
صبح ہوتی ہے مری تو ، ترے دیدار کے ساتھ
ایک ہے میری انا ، ایک انا کس کی ہے
کس نے دیوار بنا دی...
جو دیا تو نے ہمیں و ہ صورتِ زر رکھ لیا
تو نے پتھر دے دیا تو ہم نے پتھر ر کھ لیا
سسکیوں نے چار سو دیکھا کوئی ڈھارس نہ تھی
ایک تنہائی تھی اس کی گود میں سر رکھ لیا
گھٹ گیا تہذیب کے گنبد میں ہر خواہش کا دم
جنگلوں کا مور ہم نے گھر کے اندر رکھ لیا
میرے بالوں پہ سجا دی گرم صحراؤں کی دھول
اپنی آنکھوں...
غزل
چِھن گئی درد کی دولت کیسے
ہوگئی دِل کی یہ حالت کیسے
پُوچھ اُن سے جو بِچھڑ جاتے ہیں
ٹوُٹ پڑتی ہے قیامت کیسے
تیری خاطر ہی یہ آنکھیں پائیں
میں بُھلا دُوں تِری صُورت کیسے
اب رہا کیا ہے مِر ے دامن میں
اب اُسے میری ضرورت کیسے
کاش مجھ کو یہ بتا د ے کوئی !
لوگ کرتے ہیں محبّت کیسے
عدیم ہاشمی
پوچھا صدف تو آنکھ جھکا کر دکھا دیا
پوچھا گوہر تو اشک بہا کر دکھا دیا
پوچھا کہ اتنے پھول بہاروں میں کس طرح
اس نے عدیم خود کو ہنسا کر دکھا دیا
پوچھا کہ شب کو چاند نکلتا ہے کس طرح
رخ سے نقاب اس نے ہٹا کر دکھا دیا
پوچھا کہ آفتاب کو چھاؤں کبھی ملی
بالوں کو اس نے رخ پہ گرا کر دکھا دیا
پوچھا کہاں...
پیار وہ بھی تو کرے، وہ بھی تو چاہے گاہے
آہ وہ بھی تو بھرے، وہ بھی کراہے گاہے
عدل تھوڑا سا تو اے عادلِ وعدہ شکناں
عہد وہ روز کرے اور نبھاہے گاہے
لے حوالے ترے کر دی ہے تعلق کی کلید
یاد کر روز اسے، مل اسے گاہے گاہے
نرم سا نور بھی ہو، گرم سی تاریکی میں
آ شبِ ہجر میں بھی صورتِ ماہے گاہے
پیار دریا...
پتھر ہے تیرے ہاتھ میں یا کوئی پھول ہے
جب تو قبول ہے، تیرا سب کچھ قبول ہے
پھر تو نے دے دیا ہے نیا فاصلہ مجھے
سر پر ابھی تو پچھلی مسافت کی دھول ہے
تو دل پہ بوجھ لے کے ملاقات کو نہ آ
ملنا ہے اس طرح تو بچھڑنا قبول ہے
تو یار ہے تو اتنی کڑی گفتگو نہ کر
تیرا اصول ہے تو میرا بھی اصول ہے
لفظوں کی...
آنکھوں میں آنسوؤں کو ابھرنے نہیں دیا
مٹی میں موتیوں کو بکھرنے نہیں دیا
جس راہ پر پڑے تھے ترے پاؤں کے نشاں
اس راہ سے کسی کو گزرنے نہیں دیا
چاہا تو چاہتوں کی حدوں سے گزر گئے
نشہ محبتوں کا اترنے نہیں دیا
ہر بار ہے نیا ترے ملنے کا ذائقہ
ایسا ثمر کسی بھی شجر نے نہیں دیا
اتنے بڑے جہان میں جائے...
ہمراہ لیے جاؤ مِرا دیدہء تَر بھی
جاتے ہو سفر پر تو کوئی رختِ سفر بھی
بھیجے ہیں تلاطم بھی کئی اور بھَنور بھی
اے بحرِ سُخن، چند صدف، چند گہر بھی
پھر آنکھ وہیں ثبت نہ ہو جائے تو کہنا
پڑ جائے اگر اُس پہ تِری ایک نظر بھی
درکار ہے کیا آپ کو اشکوں کی دُکاں سے
جلتی ہوئی شمعیں بھی ہیں، کچھ دیدہء تر...
گُم اپنی محبت میں دونوں، نایاب ہو تم نایاب ہیں ہم
کیا ہم کو کُھلی آنکھیں دیکھیں، اِک خواب ہو تم اِک خواب ہیں ہم
کیا محشر خیز جُدائی ہے، کیا وصل قیامت کا ہو گا
جذبات کا اِک سیلاب ہو تم، جذبات کا اِک سیلاب ہیں ہم
آنکھیں جو ہیں اپنے چہرے پر، اِک ساون ہے اِک بھادوں ہے
اے غم کی ندی تو فکر نہ کر،...
اُڑ کر کبُوتر ایک سرِ بام آ گیا
مجھ کو یہی لگا ترا پیغام آ گیا
میں گِن رہا تھا آج پُرانی محبتیں
ہونٹوں پہ آج پھر سے ترا نام آ گیا
رکھا تھا ہاتھ نبض پہ چُھونے کے واسطے
اُس نے یہ کہہ دیا ، مجھے آرام آ گیا
احساں کا ڈھنگ ڈھونڈتے پھرتے رہے عزیز
جو یار تھا عدیم، مرے کام آ گیا
وہ اِک نظر...
جلتا رہا ہوں رات کی تپتی چٹان پر
سُورج تھا جیسے، چاند نہ تھا آسمان پر
اِک روگ ہے کہ جاں کو لگا ہے اُڑان کا
ٹُوٹا ہوا پڑا ہوں پروں کی دُکان پر
میں راستوں میں اُس کا لگاؤں کہاں سُراغ
سو سو قدم ہیں، ایک قدم کے نِشان پر
بادل کو چُومتی رہیں پُختہ عمارتیں
بجلی گِری تو شہر کے کچے مکان پر...
حیراں ہوں زِندگی کی انوکھی اُڑان پر
پاؤں زمین پر ہیں ، مزاج آسمان پر
آتا نہیں یقین کِسی کی زُبان پر
بادل کا ہو رہا ہے گماں بادبان پر
کِرنوں کے تِیر چلنے لگے ہیں جہان پر
بیٹھا ہوا ہے کون فلک کی مچان پر
یہ زخم تو مِلا تھا کِسی اور سے مجھے
کیوں شکل تیری بننے لگی ہے نِشان پر
اِتنے سِتم...
شبِ ہجراں تھی جو بسَر نہ ہوئی
ورنہ کِس رات کی سحر نہ ہوئی
ایسا کیا جرم ہو گیا ہم سے
کیوں ملاقات عُمر بھر نہ ہوئی
اشک پلکوں پہ مُستقل چمکے
کبھی ٹہنی یہ بے ثمر نہ ہوئی
تیری قُربت کی روشنی کی قسم
صُبح آئی مگر سحر نہ ہوئی
ہم نے کیا کیا نہ کر کے دیکھ لیا
کوئی تدبیر کار گر نہ ہوئی
کتنے...
غزل کو پھر سجا کے صُورتِ محبوب لایا ہوں
سُنو اہلِ سُخن! میں پھر نیا اسلُوب لایا ہوں
کہو، دستِ محبت سے ہر اِک در پر یہ دستک کیوں
کہا ، سب کے لیے میں پیار کا مکتُوب لایا ہوں
کہو، کیا داستاں لائے ہو دل والوں کی بستی سے
کہا، اِک واقعہ میں آپ سے منسُوب لایا ہوں
کہو ، یہ جسم کِس کا، جاں کِس...
اُس نے کہا، ہم آج سے دلدار ہو گئے
سب لوگ اُس کے دل کے طلبگار ہو گئے
اُس نے کہا کہ ایک حسیں چاہیے مجھے
سارے ہی لوگ زینتِ بازار ہو گئے
اُس نے کہا کہ صاحبِ کردار ہے کوئی
اِک پل میں لوگ صاحبِ کردار ہو گئے
اُس نے کہا کہ مجھے مِری تعمیر چاہیے
جو خشت وسنگ بار تھے ، معمار ہو گئے
اُس نے کہا،...
ہم بہرحال دل و جاں سے تمہارے ہوتے
تم بھی اِک آدھ گھڑی کاش ہمارے ہوتے
عکس پانی میں محبت کے اُتارے ہوتے
ہم جو بیٹھے ہوئے ، دریا کے کنارے ہوتے
جو مہ و سال گزارے ہیں بچھڑ کر ہم نے
وہ مہ و سال اگر ساتھ گزارے ہوتے
کیا ابھی بیچ میں دیوار کوئی باقی ہے
کونسا غم ہے بھلا تم کو ہمارے ہوتے
آپ تو...
زندگی پاؤں نہ دَھر جانبِ انجام ابھی
مرے ذمے ہیں ادُھورے سے کئی کام ابھی
ابھی تازہ ہے بہت گھاؤ بچھڑ جانے کا
گھیر لیتی ہے تری یاد سرِشام ابھی
اِک نظر اور اِدھر دیکھ مسیحا میرے
ترے بیمار کو آیا نہیں آرام ابھی
رات آئی ہے تو کیا ، تم تو نہیں آئے ہو
مری قسمت میں کہاں لِکھا ہے آرام ابھی
جان...
ہلے نہ ہونٹ ترے قُرب کے بیاں کے لیے
یہ ذائقہ ہی نیا ہے مری زباں کے لیے
میں کون کون سے دیوار و دَر کو یاد کروں
دھڑک رہا ہے مرا دل تو ہر مکاں کے لیے
کہاں لکھوں کہ نہ پہنچے جہاں یہ وقت کا ہاتھ
قدم کہاں پہ دھروں دائمی نشاں کے لیے
نہ اب وہ اپنی تمنا، نہ اب وہ خواہشِ خاص
میں جی رہا ہوں یہ کس...
تر بہ تر اے چشم تجھ کو کر چلے
کم سے کم تیرا تو دامن بھر چلے
ساتھ اپنے کچھ نہیں لے کر چلے
سب یہاں کا تھا، یہیں پر دَھر چلے
ہوتے ہوتے اور ہی کچھ ہو گیا
کرتے کرتے اور ہی کچھ کر چلے
رہ گیا باقی چراغوں کا دُھواں
لوگ اُٹھ کر اپنے اپنے گھر چلے
پانچویں تو سمت ہی کوئی نہیں
تِیر چاروں سمت سے دل پر...