علامہ شبلی نعمانی کی ایک خوبصورت غزل
من کہ در سینہ دِلے دارم و شیدا چہ کنم
میل با لالہ رُخاں گر نہ کنم تا چہ کنم
میں کہ سینے میں دل رکھتا ہوں اور وہ بھی شیدا سو کیا کروں؟ اگر لالہ رُخوں کے ساتھ میل جول نہ رکھوں تو پھر آخر کیا کروں۔
من نہ آنم کہ بہ ہر شیوہ دل از دست دہم
لیک با آں نگہٴ حوصلہ...
غزل
ناتواں عشق نے آخر کیا ایسا ہم کو
غم اٹھانے کا بھی باقی نہیں یارا ہم کو
دردِ فرقت سے ترے ضعف ہے ایسا ہم کو
خواب میں ترے دشوار ہے آنا ہم کو
جوشِ وحشت میں ہو کیا ہم کو بھلا فکرِ لباس
بس کفایت ہے جنوں دامنِ صحرا ہم کو
رہبری کی دہنِ یار کی جانب خط نے
خضر نے چشمۂ حیواں یہ دکھایا ہم کو
دل...
غزل
تیس دن کے لئے ترک مے و ساقی کر لوں
واعظِ سادہ کو روزوں میں تو راضی کر لوں
پھینک دینے کی کوئی چیز نہیں فضل و کمال
ورنہ حاسد تری خاطر سے میں یہ بھی کر لوں
اے نکیرین قیامت ہی پہ رکھو پرسش
میں ذرا عمرِ گذشتہ کی تلافی کر لوں
کچھ تو ہو چارۂ غم بات تو یک سُو ہو جائے
تم خفا ہو تو اجل ہی کو...
غزل
تیرِ قاتل کا یہ احساں رہ گیا
جائے دل سینہ میں پیکاں رہ گیا
کی ذرا دستِ جنوں نے کوتہی
چاک آ کر تا بداماں رہ گیا
دو قدم چل کر ترے وحشی کے ساتھ
جادۂ راہِ بیاباں رہ گیا
قتل ہو کر بھی سبکدوشی کہاں
تیغ کا گردن پہ احساں رہ گیا
ہم تو پہنچے بزمِ جاناں تک مگر
شکوۂ بیدادِ درماں رہ گیا
کیا قیامت...