غزل
آ کہ تیرے غم میں بے تاب و تواں ہے زندگی
یہ کہاں کی زندگی ہے ، یہ کہاں ہے زندگی
زندگی کے گرد زاروں میں نہاں ہے زندگی
زندگی سمجھا ہے جس کو وہ کہاں ہے زندگی
ہر نظر میری حدیثِ حسن و وحیِ عشق ہے
میرے رومانِ وفا کی ترجماں ہے زندگی
شورِ ہستی دے رہا ہے دعوتِ قربت مجھے
کیا نمازِ صبحِ محشر...
غزلِ
سیمؔاب اکبر آبادی
افسانے اُن کے محفلِ اِمکاں میں رہ گئے
کچھ روز، وہ بھی پردۂ اِنساں میں رہ گئے
سو بار ہاتھ اُلجھ کے گریباں میں رہ گئے
اب کتنے دِن قدومِ بہاراں میں رہ گئے ؟
کافُور سے بھی عِشق کی ٹھنڈی ہُوئی نہ آگ
پھائے لگے ہُوئے دلِ سوزاں میں رہ گئے
جتنے نِشاں جُنوں کے تھے لوٹ آئے...
غزلِ
سیماب اکبرآبادی
تصویرذہن میں نہیں تیرے جمال کی
آباد ہو کے لُٹ گئی دُنیا خیال کی
دامن کشِ حواس ہے وحشت خیال کی
کتنی جُنوں اثر ہے بہاراب کے سال کی
میں صُورتِ چراغ جَلا اور بُجھ گیا
لایا تھا عمْرمانگ کے شامِ وصال کی
یوں طُورکو جَلا دِیا برقِ جمال نے
پتّھر میں رہ نہ جائے تَجلّی جمال...