غزل
سیماب اکبر آبادی
ہَمَیں تو یوں بھی نہ جلوے تِرے نظرآئے
نہ تھا حجاب، توآنکھوں میں اشک بھرآئے
ذرا سی دیر میں دُنیا کی سیر کرآئے
کہ لے کے تیری خبر تیرے بے خبرآئے
اسِیر ہونے کے آثار پھر نظرآئے
قفس سے چھوٹ کر آئے تو بال وپرآئے
تجھے ملال ہے ناکامئ نظر کا فضول
نظر میں جو نہ سمائے وہ کیا...
غزل
سیماب اکبرآبادی
اب کیا بتائیں عمرِ وفا کیوں خراب کی
نوحہ ہے زندگی کا کہانی شباب کی
تم نے خبر نہ لی مِرے حالِ خراب کی
کالی ہوئیں فراق میں راتیں شباب کی
تھی الوداعِ ہوشِ تجلّئِ مختصر
میرا تو کام کرگئی جنْبش نقاب کی
وہ میرے ساتھ ساتھ مُجسّم تِرا خیال
وہ جنگلوں میں سیر شبِ ماہتاب کی...