غزل
رنگ و رَس کی ہَوَس اور بس
مسئلہ دسترس اور بس
یُوں بُنی ہیں رَگیں جِسم کی
ایک نس، ٹس سے مس اور بس
سب تماشائے کُن ختم شُد
کہہ دیا اُس نے بس اور بس
کیا ہے مابینِ صیّاد و صید
ایک چاکِ قفس اور بس
اُس مصوّر کا ہر شاہکار
ساٹھ پینسٹھ برس اور بس
عمار اقبال
کراچی، پاکستان
غزل
میرے ہر وصل کے دَوران مجھے گُھورتا ہے
اِک نئے ہجر کا اِمکان مجھے گُھورتا ہے
میرے ہاتھوں سے ہیں وابستہ اُمیدیں اُس کی
پُھول گرتے ہیں تو، گُلدان مجھے گُھورتا ہے
آئینے میں تو کوئی اور تماشہ ہی نہیں !
میرے جیسا کوئی اِنسان مجھے گُھورتا ہے
اب تو یُوں ہے کہ گُھٹن بھی نہیں ہوتی مجھ کو
اب...