عرفان صدیقی

  1. عاطف سعد

    کچھ رقص کر

  2. آصف اثر

    آپ بھی سلیپروں میں گرفتار ہوسکتے ہیں

    عرفان صدیقی کی زندگی تین حصوں میں بٹی ہوئی ہے‘ یہ استاد تھے‘ یہ پوری زندگی پڑھاتے رہے‘ یہ پھر قلم کے مزدور بنے‘ لکھنا شروع کیا اور تیس سال لکھتے چلے گئے‘ کالم نوائے وقت میں شروع کیا اور جنگ سے ہوتے ہوئے خاموش ہو گئے اور ان کی زندگی کا تیسرا حصہ سیاست ہے۔ یہ 1998ء میں صدر رفیق احمد تارڑ کے ذریعے...
  3. ش

    غزل

    دیتے ہیں ترجیح اپنے مفادات کو مذاق سمجھتے ہیں وہ بیتے لمحات کو جس سے کیں تھیں ہزاروں باتیں بھول گیا ہے وہ ہر بات کو اس کو کچھ بھی اب یا د نہیں کرتا تھا باتیں جو آدھی رات کو
  4. ص

    غزل براے اصلاح و تنقید

    ﺏﮯ ﻭﻓﺎﺉﯽ ﮐﺍ ﺳﻞﯿﻕﮧ ﺏﮭﯽ ﻥﮩﯿﮟ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ ﭨﮭﯿﮏ ﺱﮯ ﺗﺞﮫ ﮐﻭ ﻡﮑﺭﻧﺎ ﺏﮭﯽ ﻥﮩﯿﮟ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ ﮨﻡ ﯾﮧ ﮐﺱ ﮐﻧﺞ ﺏﯿﺍﺑﺎﮞ ﻡﯿﮟ ﮨﻭئے ﮨﯿﮟ ﺁﺑﺎﺩ ﺍﺱ ﻃﺮﻑ ﺗﻮ ﮐﻭﺉﯽ ﺭﺳﺖﮧ ﺏﮭﯽ ﻥﮩﯿﮟ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ ﺏﮯ ﻥﯿﺍﺯﯼ ﺗﻮ ﺕﯿﺭﯼ ﺧﺎﺹ ﺍﺩﺍ ﮨﮯ ﻝﯿﮑﻥ ﮐﯿﺍ ﮔﻣﺎﮞ ﺗﻢ ﮐﻭ ﮨﻣﺎﺭﺍ ﺏﮭﯽ !!ﻥﮩﯿﮟ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ ؟ ﻥﯿﮑﯿﺍﮞ ﺍﭘﻥﯽ ڈﺑﻮﻥﮯ ﮐﮯ ﻟﺊﮯ ﻥﮑﻝﯽ ﮨﻭﮞ ﭘﺭ ﮐﻭﺉﯽ ﺳﺎﻣﻦﮯ ﺩﺭﯾﺍ ﺏﮭﯽ ﻥﮩﯿﮟ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ...
  5. ص

    غزل براے اصلاح و تنقید

    آئینے میں تو ذرا دیر ٹھہر جاؤ ناں اے مرے عکسِ شکستہ نہیں ڈراؤ ناں یہ بھی آنکھوں میں لئے اشک نکل پڑتے ہیں ان ستاروں کو کوئی بات سنا جاؤ ناں اب تری آنکھ کی دہلیز پہ مر جانا ہے ریزہ ریزہ جو مرا مان ہے لے آؤ ناں خشک آنکھوں میں ترا درد سما لائی ہوں وحشتِ دل کو شبِ درد میں سمجھاؤ ناں...
  6. لاریب مرزا

    عرفان صدیقی کون ہے جس کے لیے نامۂ جاں لکھتے ہو

    تم جو عرفانؔ یہ سب دردِ نہاں لکھتے ہو کون ہے جس کے لیے نامۂ جاں لکھتے ہو جانتے ہو کہ کوئی موج مٹا دے گی اسے پھر بھی کیا کیا سرِ ریگِ گزراں لکھتے ہو جس کے حلقے کا نشاں بھی نہیں باقی کوئی اب تک اس رشتے کو زنجیرِ گراں لکھتے ہو یہ بھی کہتے ہو کہ احوال لکھا ہے جی کا اور یہ بھی کہ حدیثِ دگراں لکھتے...
  7. نیرنگ خیال

    عرفان صدیقی خرابہ ایک دن بن جائے گھر ایسا نہیں ہوگا

    خرابہ، ایک دِن بَن جائے گھر، ایسا نہیں ہوگا اچانک جی اُٹھیں وہ بام و در، ایسا نہیں ہوگا وہ سب، اِک بُجھنے والے شُعلۂ جاں کا تماشا تھا دوبارہ ہو وہی رقصِ شَرر، ایسا نہیں ہوگا وہ ساری بَستیاں، وہ سارے چہرے، خاک سے نِکلیں یہ دُنیا، پِھر سے ہو زیر و زَبر، ایسا نہیں ہوگا مِرے گُم گشتگاں کو لے...
  8. کاشفی

    عرفان صدیقی اٹھو یہ منظر شب تاب دیکھنے کے لیے - عرفان صدیقی

    غزل (عرفان صدیقی - لکھنؤ) اٹھو یہ منظر شب تاب دیکھنے کے لیے کہ نیند شرط نہیں خواب دیکھنے کے لیے عجب حریف تھا میرے ہی ساتھ ڈوب گیا مرے سفینے کو غرقاب دیکھنے کے لیے وہ مرحلہ ہے کہ اب سیل خوں پہ راضی ہیں ہم اس زمین کو شاداب دیکھنے کے لیے جو ہو سکے تو ذرا شہ سوار لوٹ کے آئیں پیادگاں کو...
  9. نیرنگ خیال

    عرفان صدیقی ذرا سی بات پہ دل کا گداز ہو جانا

    ہوا کا چلنا‘ دریچوں کا باز ہو جانا ذرا سی بات پہ دل کا گداز ہو جانا مرے کنار سے اٹھنا مرے ستارے کا اور اس کے بعد شبوں کا دراز ہو جانا وہ میرے شیشے پہ آنا تمام گردِ ملال پھر ایک شخص کا آئینہ ساز ہو جانا وہ جاگنا مری خاکِ بدن میں نغموں کا کسی کی انگلیوں کانے نواز ہو جانا خیال میں ترا کُھلنا...
  10. کاشفی

    عرفان صدیقی حق فتح یاب میرے خدا کیوں نہیں ہوا - عرفان صدیقی

    غزل عرفان صدیقی، لکھنؤ - 1939 - 2004 حق فتح یاب میرے خدا کیوں نہیں ہوا تو نے کہا تھا تیرا کہا کیوں نہیں ہوا جب حشر اسی زمیں پہ اُٹھائے گئے تو پھر برپا یہیں پہ روزِ جزا کیوں نہیں ہوا وہ شمع بجھ گئی تھی تو کہرام تھا تمام دل بجھ گئے تو شور عزا کیوں نہیں ہوا داماندگاں پہ تنگ ہوئی کیوں تری زمیں...
  11. کاشفی

    دلِ سوزاں پہ جیسے دستِ شبنم رکھ دیا دیکھو - عرفان صدیقی

    منقبت (عرفان صدیقی) دلِ سوزاں پہ جیسے دستِ شبنم رکھ دیا دیکھو علی کے نام نے زخموں پہ مرہم رکھ دیا دیکھو سنا ہے گردِ راہ بوتراب آنے کو ہے سر پر زمیں پر میں نے تاجِ خسرو و جم رکھ دیا دیکھو طلسمِ شب مری آنکھوں کا دشمن تھا تو مولا نے لہو میں اک چراغِ اسمِ اعظم رکھ دیا دیکھو سخی داتا سے انعامِ...
  12. چوہدری لیاقت علی

    عرفان صدیقی ہم سے وہ جان سخن ربط نوا چاہتی ہے

    ہم سے وہ جان سخن ربط نوا چاہتی ہے چاند ہے اور چراغوں سے ضیا چاہتی ہے اس کو رہتا ہے ہمیشہ مری وحشت کا خیال میرے گم گشتہ غزالوں کا پتا چاہتی ہے میں نے اتنا اسے چاہا ہے کہ وہ جانِ مراد خود کو زنجیر صحبت سے رہا چاہتی ہے چاہتی ہے کہ کہیں مجھ کو بہا کر لے جائے تم سے بڑھ کر تو مجھے موج فنا چاہتی ہے...
  13. چوہدری لیاقت علی

    عرفان صدیقی سخن میں رنگ تمھارے خیال ہی کے تو ہیں

    سخن میں رنگ تمھارے خیال ہی کے تو ہیں یہ سب کرشمے ہوائے وصال ہی کے تو ہیں کہا تھا تم نے کہ لاتا ہے کون عشق کی تابہ سو ہم جو اب تمھارے سوال ہی کے تو ہیں ذرا سی بات ہے دل میں اگر بیاں ہوجائے تمام مسئلے اظہار حال ہی کے توہیں یہاں بھی اس کے سوا اور کیا نصیب ہمیں ختن میں رہ کے بھی چشم غزال ہوجائے...
  14. مدیحہ گیلانی

    عرفان صدیقی ختم ہو جنگ خرابے پہ حکومت کی جائے ۔۔۔۔۔۔عرفان صدیقی

    ختم ہو جنگ خرابے پہ حکومت کی جائے آخری معرکہ صبر ہے عجلت کی جائے ہم نہ زنجیر کے قابل ہیں نہ جاگیر کے اہل ہم سے انکار کیا جائے نہ بیعت کی جائے مملکت اور کوئی بعد میں ارزانی ہو پہلے میری ہی زمیں مجھ کو عنایت کی جائے یا کیا جائے مجھے خوش نظری سے آزاد یا اِسی دشت میں پیدا کوئی صورت کی جائے...
  15. طارق شاہ

    عرفان صدیقی تیرے تن کے بہت رنگ ہیں جانِ من، اور نہاں دل کے نیرنگ خانوں میں ہیں

    تیرے تن کے بہت رنگ ہیں جانِ من، اور نہاں دل کے نیرنگ خانوں میں ہیں لامسہ، شامہ و ذائقہ، سامعہ، باصرہ، سب مِرے رازدانوں میں ہیں اور کچھ دامنِ دل کشادہ کرو، دوستو شُکرِ نعمت زیادہ کرو پیڑ، دریا، ہَوا، روشنی، عورتیں، خوشبوئیں، سب خُدا کے خزانوں میں ہیں ناقہٴ حُسن کی ہم رکابی کہاں، خیمہٴ ناز میں...
  16. محمداحمد

    عرفان صدیقی غزل ۔ چراغ دینے لگے گا دھواں نہ چھو لینا ۔ عرفان صدیقی

    غزل چراغ دینے لگے گا دھواں نہ چھو لینا تو میرا جسم کہیں میری جاں نہ چھو لینا زمیں چُھٹی تو بھٹک جاؤگے خلاؤں میں تم اُڑتے اُڑتے کہیں آسماں نہ چھو لینا نہیں تو برف سا پانی تمھیں جلا دے گا گلاس لیتے ہوئے اُنگلیاں نہ چھو لینا ہمارے لہجے کی شائستگی کے دھوکے میں ہماری باتوں کی گہرائیاں نہ...
  17. محسن وقار علی

    کراچی سرکلر ریلوے کا منصوبہ... عرفان صدیقی…(ٹوکیو)

    میں چاہنے کے باوجود اپنے آپ کو اس وقت کے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی سے سوال کرنے سے نہ روک سکا اور ان سے پوچھ بیٹھا کہ کیا وجہ ہے کہ جاپانی حکومت گزشتہ بارہ سالوں سے کراچی میں ڈیڑھ ارب ڈالر کی خطیر سرمایہ کاری سے کراچی سرکلر ریلو ے کی تعمیر کے لئے کوشاں ہے اور ہماری حکومت مسلسل حیلے بہانوں سے...
  18. محسن وقار علی

    تماشائے اہل سیاست!...نقش خیال…عرفان صدیقی

    بلوچستان میں گورنر راج لگ چکا۔ سندھ آتش زیرپا ہے اور کراچی بدستور لہو میں نہا رہا ہے۔ خیبر پختونخوا میں وزراء محفوظ ہیں نہ ہمارے فوجی، پورا ملک بے چینی کی لپیٹ میں ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ پیپلزپارٹی اور اس کا دسترخوانی قبیلہ حالات کی نزاکت کا شعور کرتے ہوئے اپوزیشن کی مشاورت سے آئندہ انتخابات کے...
  19. محسن وقار علی

    عرفان صدیقی پچھتاووں کا موسم

    ”پچھتاووں کا موسم“ ”تمہیں میں نے کہا بھی تھا کہ اتنی دور مت جاؤ جہاں جاتے ابابیلوں کے پر جھڑنے لگیں خوشبو اڑے تو راستوں کی دھول ہوجائے کبوتر، وصل کا پیغام دینے کو اڑیں اور دور جاتی کشتیوں کے بادباں ان کے پروں کو نوچ لیں! میں نے کہا بھی تھا…! کہ اتنی دور مت جاؤ اگر جانا ضروری ہے تو موسم کو ذرا...
  20. محمداحمد

    عرفان صدیقی غزل ۔ قدم اُٹھے تو گلی سے گلی نکلتی رہی ۔ عرفان صدیقی

    غزل قدم اُٹھے تو گلی سے گلی نکلتی رہی نظر دیے کی طرح چوکھٹوں پہ جلتی رہی کچھ ایسی تیز نہ تھی اُس کے انتظار کی آنچ یہ زندگی ہی مری برف تھی پگھلتی رہی سروں کے پھول سرِ نوکِ نیزہ ہنستے رہے یہ فصل سوکھی ہوئی ٹہنیوں پہ پھلتی رہی ہتھیلیوں نے بچایا بہت چراغوں کو مگر ہوا ہی عجب زاویے بدلتی رہی...
Top