عرفان ستار

  1. محمداحمد

    غزل ۔ طلب تو جزوِ تمنا کبھی رہی بھی نہیں ۔ عرفان ستار

    غزل طلب تو جزوِ تمنا کبھی رہی بھی نہیں سو اب کسی کے نہ ہونے سے کچھ کمی بھی نہیں ہمیں تمہاری طرف روز کھینچ لاتی تھی وہ ایک بات جو تم نے کبھی کہی بھی نہیں وہ سب خیال کے موسم کسی نگاہ سے تھے سو اب خوشی بھی نہیں دل گرفتگی بھی نہیں کرم کیا کہ رُکے تم نگاہ بھر کے لیے نظر کو اس سے زیادہ کی تاب تھی...
  2. فرخ منظور

    شاعر کی فریاد ۔ عرفان ستار

    شاعر کی فریاد (تازہ مسدّس) (عرفان ستار) مشاعرے کے لیے کچھ بھی ہے قبول مجھے طعام کے لیے چاہے ملیں ببول مجھے خیال ِ شرم تو لگتا ہے اب فضول مجھے کہ روک سکتا نہیں کوئی بھی اصول مجھے مشاعرہ ہی ضروری ہے زندگی کے لیے بس ایک بار بلا لو مری خوشی کے لیے تو میں فراز کا لہجہ بنا کے آجاوٗں؟ سروں سے نرخرا...
  3. نیرنگ خیال

    پوچھتے کیا ہو دل کی حالت کا؟ (عرفان ستار)

    پوچھتے کیا ہو دل کی حالت کا؟ درد ہے، درد بھی قیامت کا یار، نشتر تو سب کے ہاتھ میں ہے کوئی ماہر بھی ہے جراحت کا؟ اک نظر کیا اٹھی، کہ اس دل پر آج تک بوجھ ہے مروّت کا دل نے کیا سوچ کر کیا آخر فیصلہ عقل کی حمایت کا کوئی مجھ سے مکالمہ بھی کرے میں بھی کردار ہوں حکایت کا آپ سے نبھ نہیں رہی اِس کی؟...
  4. لاریب مرزا

    جہاں پہ تُو بھی نہیں تھا وہاں بھی زندہ رہے

    بہت خجل ہیں کہ ہم رائگاں بھی زندہ رہے جہاں پہ تُو بھی نہیں تھا وہاں بھی زندہ رہے عجیب شرط ہے اس بے یقیں مزاج کی بھی کہ تُو بھی پاس ہو تیرا گماں بھی زندہ رہے تجھے یہ ضد ہے مگر اس طرح نہیں ہوتا کہ تُو بھی زندہ رہے داستاں بھی زندہ رہے وہ کون لوگ تھے جن کا وجود جسم سے تھا یہ کون ہیں جو پسِ جسم و...
  5. نیرنگ خیال

    زندہ ہوں اور ہجر کا آزار تک نہیں (عرفان ستار)

    زندہ ہوں اور ہجر کا آزار تک نہیں وہ کام کر رہا ہوں جو دشوار تک نہیں اب میں ہوں اور تجھ کو منانے کی جستجو کچھ بھی نہیں ہے راہ میں، پندار تک نہیں یعنی مرا وجود ہی مشکوک ہو گیا اب تو میں اپنے آپ سے بیزار تک نہیں لَو بھی تھکن سے چُور ہوئی ہے، دماغ بھی اور آسماں پہ صبح کے آثار تک نہیں اقرار...
  6. وقار..

    بے رونقی سے کوچہ و بازار بھر گئے

    بے رونقی سے کوچہ و بازار بھر گئے آوارگان ۔ شہر کہاں جا کے مر گئے آشوب ۔ آگہی میں گماں کی بساط کیا وہ آندھیاں چلیں کہ یقیں تک بکھر گئے میں خود ہی بد نُمو تھا کہ مٹی میں کھوٹ تھا کھِل ہی نہیں سکا، مرے موسم گزر گئے اب آئے جب میں حال سے بے حال ہو چکا سب چاک میرے سِل گئے، سب زخم بھر گئے جشن ِ...
  7. محمد فائق

    امکان دیکھنے کو رکا تھا میں جست کا@عرفان ستار

    امکان دیکھنے کو رکا تھا میں جست کا اعلان کردیا گیا میری شکست کا سائے سے اپنے قد کا لگاتا ہے تُو حساب اندازہ ہو گیا ہے ترے ذہنِ پست کا تجھ کو بدن کی حد سے نکلنا کہاں نصیب سمجھے گا کیسے روح کو آلودہ ہست کا تُو ہے۔ کہ کل کی بات کا رکھتا نہیں ہے پاس میں ہوں کہ پاسدار ہوں عہدِ الست کا جس سے...
  8. محمد بلال اعظم

    بام پر جمع ہوا، ابر، ستارے ہوئے ہیں۔۔۔ عرفان ستار

    بام پر جمع ہوا، ابر، ستارے ہوئے ہیں یعنی وہ سب جو ترا ہجر گزارے ہوئے ہیں زندگی، ہم سے ہی روشن ہے یہ آئینہ ترا ہم جو مشاطہءِ وحشت کے سنوارے ہوئے ہیں حوصلہ دینے جو آتے ہیں، بتائیں انھیں کیا؟ ہم تو ہمت ہی نہیں، خواب بھی ہارے ہوئے ہیں شوق ِ واماندہ کو درکار تھی کوئی تو پناہ سو تمہیں خلق کیا، اور...
  9. محمداحمد

    غزل ۔ سخن کے شوق میں توہین حرف کی نہیں کی ۔ عرفان ستّار

    غزل سخن کے شوق میں توہین حرف کی نہیں کی کہ ہم نے داد کی خواہش میں شاعری نہیں کی جو خود پسند تھے ان سے سخن کیا کم کم جو کج کلاہ تھے اُن سے تو بات بھی نہیں کی کیھی بھی ہم نے نہ کی کوئی بات مصلحتاً منافقت کی حمایت، نہیں، کبھی نہیں کی دکھائی دیتا کہاں پھر الگ سے اپنا وجود سو ہم نے ذات کی تفہیم...
  10. شیزان

    میری کم مائیگی کو ترے ذوق نے، دولت ِ حرف ِ تازہ بیاں سونپ دی

    میری کم مائیگی کو تِرے ذوق نے، دولت ِ حرف ِ تازہ بیاں سونپ دی میں کہ ٹھہرا گدائے دیار ِ سُخن، مجھ کو یہ ذمّہ داری کہاں سونپ دی قاصد ِ شہر ِ دل نے مرے خیمۂ خواب میں آ کے مجھ سے کہا جاگ جا بادشاہ ِ جُنوں نے تجھے آج سے لشکر ِ اہل ِ غم کی کماں سونپ دی احتیاط ِ نظر اور وضع ِ خرد کے تقاضوں کی...
  11. زھرا علوی

    ڈرا رہا ہے مسلسل یہی سوال مجھے ۔۔۔۔ عرفان ستار

    ڈرا رہا ہے مسلسل یہی سوال مجھے گزار دیں گے یونہی کیا یہ ماہ و سال مجھے بچھڑتے وقت اضافہ نہ اپنے رنج میں کر یہی سمجھ کہ ہُوا ہے بہت ملال مجھے وہ شہر ِ ہجر عجب شہر ِ پُر تحیّر تھا بہت دنوں میں تو آیا ترا خیال مجھے تُو میرے خواب کو عجلت میں رائگاں نہ سمجھ ابھی سخن گہ ِ امکاں سے مت نکال...
  12. زھرا علوی

    کوئی ملا، تو کسی اور کی کمی ہوئی ہے ۔۔ عرفان ستار

    کوئی ملا، تو کسی اور کی کمی ہوئی ہے سو دل نے بے طلبی اختیار کی ہوئی ہے جہاں سے دل کی طرف زندگی اُترتی تھی نگاہ اب بھی اُسی بام پر جمی ہوئی ہے ہے انتظار اِسے بھی تمہاری خوشبو کا؟ ہوا گلی میں بہت دیر سے رُکی ہوئی ہے تم آگئے ہو، تو اب آئینہ بھی دیکھیں گے ابھی ابھی تو نگاہوں میں روشنی...
  13. زھرا علوی

    تیری نسبت سے زمانے پہ عیاں تھے ہم بھی۔۔ عرفان ستار

    تیری نسبت سے زمانے پہ عیاں تھے ہم بھی تُو جو موجود نہ ہوتا، تو کہاں تھے ہم بھی حرمت ِ حرف نہیں ہے سو یہ ارزانی ہے ورنہ وہ دن بھی تھے جب خواب ِ گراں تھے ہم بھی ہم بھی حیراں ہیں بہت خود سے بچھڑ جانے پر مستقل اپنی ہی جانب نگراں تھے ہم بھی اب کہیں کیا، کہ وہ سب قصہءِ پارینہ ہُوا...
Top