میں اکثر برباد ہوا ہوں غلط اندازوں میں
میرے خوبصورت احساس سے پیار کرنے والوں
کیا عشق کی انتہا بھی دو گے مجھکو اس عید پر؟
بھیگتا ہوا موسم ٹھنڈ، خاموشی اور تاریک راتیں
اس کے علاوہ بھی کچھ دو گے مجھکو اس عید پر؟
تحریر
عشق بسمل
غزل
تقابل کسی کا ہو کیا نازبُو سے
نہیں اِک مشابہ مری خُوبرُو سے
کہاں باز آئے ہم اِک آرزو سے !
نکھرتے مہکتے ترے رنگ و بُو سے
ہُوا کچھ نہ حاصل تری جستجو سے
رہے پیرہن تر ہم اپنے لہو سے
اِطاعت، بغاوت میں ڈھل جائے اکثر
نتیجہ نہ حاصل ہو جب گفتگو سے
پیامِ بہم روشنی کی کرن ہے!
ہٹے نا اُمیدی بھی...
یادوں سے سیلِ غم کو ہیں آنکھوں میں روکے ہم
کب بھُولے، زندگی سے محبّت کے بوسے ہم
دیکھیں برستی آگ لبِ نغمہ گو سے ہم
حیراں ہیں گفتگو کو مِلی طرزِ نَو سے ہم
سب دوست، آشنا جو تھے تاتاری بن گئے
آئے وطن، تو بیٹھے ہیں محبوس ہوکے ہم
اپنی روایتوں کا ہَمَیں پاس کب رہا !
کرتے شُمار خود کو ہیں اِس...
غزل
کچھ نہ ہم کو سُجھائی دیتا ہے
ہر طرف وہ دِکھائی دیتا ہے
خود میں احساس اب لئے اُن کا
لمحہ لمحہ دِکھائی دیتا ہے
ہوگئے خیر سے جواں ہم بھی
گُل بھی کیا گُل دِکھائی دیتا ہے
دسترس میں ہے کُچھ نہیں پھر بھی
اُونچا اُونچا سُجائی دیتا ہے
کب محبّت میں سُرخ رُو ہونا
اپنی قسمت دِکھائی دیتا...