غزل
نئی رتوں میں نئے انکشاف کر جائیں
شجر سے لپٹی ہوئی بیل صاف کر جائیں
مرے وجود کے سب زاویے سلامت ہیں
خطوط کیسے ترا اعتراف کر جائیں
یہ اور بات کہ ہم تیرے معترف ٹھہرے
عجب نہیں جو کبھی اختلاف کر جائیں
سحر کے خواب بہیں اپنی کور آنکھوں سے
شبِ دعا کو ہمارے خلاف کر جائیں
ہُوا تو شہر...