غزل
نگاہِ ناز کا حاصل ہے اعتبار مجھے
ہوائے فراق ذرا اور بھی نکھار مجھے
کبھی زباں نہ کھلی عرضِ مدعا کے لیے
کیا ہے پاسِ ادب نے شرمسار مجھے
پرانے زخم نئے داغ ساتھ ساتھ رہے
ملی تو کیسی ملی دولتِ بہار مجھے
پھر اہلِ ہوش کے نرغے میں آ گیا ہوں میں
خدا کے واسطے ایک بار پھر پکار مجھے...