غزل
محمد خلیل الرحمٰن
(جناب ظفر اقبال سے معذرت کے ساتھ)
سر پھٹوّل گھر کے اندر روز ہوتی ہے مگر
’’یہ تماشا اب سرِ بازار ہونا چاہیے‘‘
روز برتن دھوتے دھوتے ایسی عادت پڑگئی
اب تو ہم کو خواب سے بیدار ہونا چاہیے
اب وہی کرنے لگے ہیں اک نئی شادی کی بات
جو کبھی کہتے تھے بس اک بار ہونا...
ایک بُری خبر
میں آج آپ کو ایک بُری خبر سنانے چلا ہوں۔ بہت بُری کیونکہ بُری خبر سے ہی خیر کا کوئی پہلو نکل سکتا ہے، اس لیے ہمیں بُری خبریں ایک دوسرے کو سناتے رہنا چاہیے۔ اگرچہ اچھی خبر کے اپنے فضائل ہیں لیکن نقصان بھی کیونکہ یہ آپ کو کچھ عرصے کے لیے خوش تو کر سکتی ہے لیکن یہ آپ کو لاپروا...
فاروقی، میری جان، میں تمہیں بھاگنے نہیں دوں گا-از ظفر اقبال
حضرت ظفر اقبال کا تازہ کالم (19 نومبر، 2013
درج ذیل سافٹ لنک پر موجود پی ڈی ایف فائل میں م۔لاحظہ کیجیے، یہ کالم انہوں نے خبرنامہ شب خون کے جس شمارے پر لکھا ہے وہ جولائی-ستمبر، 2013 کا تازہ شمارہ ہے۔ پی ڈی ایف فائل میں سب سے پہلے مذکورہ...
ذیل میں نامور شاعر جناب ظفر اقبال سے بی بی سی کے لیے انور سن رائے کاکیا گیا مصاحبہ(انٹرویو) پیش خدمت ہے۔ظفر اقبال صاحب کے خیالات سے اختلاف و اتفاق رکھنے والوں کی ایک کثیر تعداد موجود ہے، البتہ یہ بات تو طے شدہ ہے کہ نئی اردو غزل اور شعراء پہ ان کے اثرات ایک یا دوسری طرح ضرور پڑے ہیں۔
ظفر...
لفظ پتوں کی طرح اڑنے لگے چاروں طرف
کیا ہوا چلتی رہی آج مرے چاروں طرف
میں نے خود کو جو سمیٹا تو اُسی لمحے میں
اور بھی چاروں طرف پھیل گئے چاروں طرف
رک گئے ہیں تو یہ دریا میرے اندر ہی رکے
چل پڑے ہیں تو اُسی طرح چلے چاروں طرف
اب کہ ہوتا ہی نہیں میرا گزارا ان پر
چاہیے ہیں مجھے اس بار نئے چاروں طرف...
نہیں کہ ملنے ملانے کا سلسلہ رکھنا
کسی بھی سطح پہ کوئی تو رابطہ رکھنا
مریں گے لوگ ہمارے سوا بھی تم پہ بہت
یہ جرم ہے تو پھر اس جرم کی سزا رکھنا
مدد کی تم سے توقع تو خیر کیا ہوگی
غریبِ شہرِ ستم ہوں' مرا پتا رکھنا
بس ایک شام ہمیں چاہیے' نہ پوچھنا کیوں
یہ بات اور کسی شام پر اٹھا رکھنا
نئے سفر پر...
یہاں کسی بھی کچھ حسبِ آرزو نہ ملا
کسی کو ہم نہ ملے اور ہم کو تو نہ ملا
چمکتے چاند بھی تھے شہرِ شب کے ایواں میں
نگارِ غم سا مگر کوئی شمع رو نہ ملا
انہی کی رمز چلی ہے گلی گلی میںیہاں
جنہیں اِدھر سے کبھی اذنِ گفتگو نہ ملا
پھر آج میکدہ دل سے لوٹ آئے ہیں
پھر آج ہم کو ٹھکانے کا ہم...
حمدیہ
بحر و بر ہے یہ آپ کا صاحب
بات سنئے ذرا خدا صاحب!
کسی قوس و قطار میں نہیں ہم
اور ہماری بساط کیا صاحب
جس پہ اب تک اکڑ کے چلتے رہے
تھا یہ سب آپ کا دیا صاحب
دیتی رہتی ہے آپ ہی کا ثبوت
چلتی رہتی ہے جو ہوا، صاحب
اب تلافی نہیں، معافی ہے
کام سارا تو ہو چکا صاحب
یہ زباں آپ...
غزل
کچھ اور ابھی ناز اٹھانے ہیں تمہارے
دنیا یہ تمہاری ہے، زمانے ہیں تمہارے
باتیں ہیں تمہاری جو بہانے ہیں تمہارے
اسلوب تو یہ خاص پرانے ہیں تمہارے
ویرانہء دل سے تمہیں ڈر بھی نہیں لگتا
حیرت ہے کہ ایسے بھی ٹھکانے ہیں تمہارے
گھٹتی نہیں کیونکر یہ زر و مال کی خواہش
تم پاس ہو اور دور...
حمدیہ
تو ہے مشکل کشا، اے خدا، اے خدا
مجھ کو مجھ سے بچا، اے خدا، اے خدا
کب سے بھٹکا ہوا دشتِ خواہش میں ہوں
مجھ کو رستہ بتا ، اے خدا، اے خدا
کوئی دوبارہ ملنے کی توفیق دے
میں ہوں خود سے جدا، اے خدا، اے خدا
اپنے افلاک سے میرے ادراک سے
تو ہے سب سے بڑا، اے خدا، اے خدا
رنگِ خوابِ ہنر...
غزل
کوئی بھی اختیار اچھا برا چلنے نہیں دیتا
وہ سب کچھ کررہا ہے اور پتاچلنے نہیں دیتا
اندھیرا بھی ہے ، پتوں پر پسینہ بھی، مگر اس نے
سحر روکی ہوئی ہے اور ہوا چلنے نہیں دیتا
کبھی اٹھوا رہا ہے سارا سودا ہی دکانوں سے
کبھی بازار میں سکّہ مرا چلنے نہیں دیتا
وہاں درپیش ہے سارے سمندر کا...
غزل
گم ہوتے گئے آپ ہی امکان ہمارے
مشکل ہوئے جو کام تھے آسان ہمارے
بکھرے ہو کہاں اے خس و خاشاک ِ تمنا
غائب ہو کدھر اے سروسامان ہمارے
دریاؤں سے اب سوکھتا ہی جائے گا پانی
اور پھیلتے جائیں گے بیابان ہمارے
ہوگا نہیں موجود تواضح کے لیے کچھ
رک جائیں گے اب آپ ہی مہمان ہمارے
بازار ہیں اب ان کی...
غزل
گھر میں ہو گا کوئی زخموں کے سوا اور چراغ
شام گہری ہوئی جاتی ہے ، جلا اور چراغ
ہم ہی دونوں کا گزارہ وہاں کیوں کر نہ ہوا
جہاں رہتے رہے مل جل کے ہوا، اور، چراغ
رات بھر باغ میں ہلچل تھی کوئی چاروں طرف
جلتے بجھتے ہی رہے پھول، صبا، اور چراغ
لہر پر ایک چراغ، اور، پھر اُس لہر کے بعد...
میں تو ہوں آواز کرنے کے لئے
تم نظر انداز کرنے کے لئے
کیا کوئی ہمزاد کرنا ہے ضرور
کیا کوئی دمساز کرنے کے لئے
سوچنے ہی کے لئے ہوتے ہیں کچھ
کام، لیکن بعض کرنے کے لئے
خود تو وہ رکتا کسی صورت نہیں
چلئے اس کو باز کرنے کے لئے
اک نئ ترکیب سوجھی ہے ابھی
جسم کو پشواز کرنے کے لئے
خود کو...
دور رہ کر نہ اُسے ، پاس بلانے سے کیا
میں نے اندازہ محبت کا ، بہانے سے کیا
اس کے اپنے ہی خیالات ، پریشاں تھے بہت
جس نے آغاز مجھے ، خواب دکھانے سے کیا
کچھ تسلی مجھے ، اندازِ تغافل سے ہوئی
کچھ یقیں میں نے مزید ، اس کے نہ آنے سے کیا
کام کرنا تھا جو ہم نے کبھی ، خاموشی سے
اس قدر وہ...
سراغ دیگا کہیں جا کر ، ماہ و سال میں تُو
کہاں رہیگا میرے ، کوزہِ خیال میں تُو
پرائی دھوپ سے آنگن کی تیرگی اچھی
اُلجھ رہا ہے یہ ، کس روشنی کے جال سے تُو
تجھے خبر نہیں ، اُڑتی ہے خاکِ جاں کیسے
گھرا نہیں کسی ، اندیشہِ زوال میں تُو
میں دیکھتا ہوں ، لکیروں کی سرحدوں میں تجھے
لکھا ہوا ہے...