اک ملاقات تھی وحشت سے جو اب اکثر ہے
اور کیا بس میں ترے شامِ فسوں پرور ہے
دن سمٹتا ہے محض وقت کی بے کیفی میں
رات ہوتی ہے تو اک تارِ نفس مضطر ہے
حسرتیں آنکھ میں پھرتی ہیں بہت سی لیکن
جو سجھائی نہیں دیتی ہے وہی محور ہے
شہر پر روز گزرتی ہے قیامت کوئی
پوچھیے حال جو خوباں کا وہاں ابتر ہے
آتشِ دل...