چائے کا ارغوانی دور
٭
چائے کا دور چلے، دور چلے، دور چلے
جو چلا ہے تو ابھی اور چلے اور چلے
چائے کا دور چلے، دور چلے، دور چلے
نہ ملے چائے، تو خوننابِ جگر کافی ہے
بزم میں دور چلا ہے، تو ابھی اور چلے
چائے کا دور چلے، دور چلے، دور چلے
دیکھتے دیکھتے پنجاب کا نقشہ بدلا
آنکھوں آنکھوں میں زمانہ کے بدل...
ہندوستان
ناقوس سے غرض ہے نہ مطلب اذاں سے ہے
مجھ کو اگر ہے عشق تو ہندوستاں سے ہے
تہذیبِ ہند کا نہیں چشمہ اگر ازل
یہ موجِ رنگ رنگ پھر آئی کہاں سے ہے
ذرے میں گر تڑپ ہے تو اس ارض پاک سے
سورج میں روشنی ہے تو اس آسماں سے ہے
ہے اس کے دم سے گرمیِ ہنگامۂ جہاں
مغرب کی ساری رونق اسی اک دکاں سے ہے...
وہ شمع اُجالا جس نے کیا چالیس برس تک غاروں میں
اک روز جھلکنے والی تھی سب دنیا کے درباروں میں
گر ارض و سما کی محفل میں لولاک لما کا شور نہ ہو
یہ رنگ نہ ہو گلزاروں میں، یہ نور نہ ہو سیّاروں میں
جو فلسفیوں سے کھل نہ سکا اور نکتہ وروں سے حل نہ ہوا
وہ راز اک کملی والے نے بتلادیا چنداشاروں میں...