غزل
امیدِ عاقبتِ کار کے برابر ہے
یہ اک درخت کہ دیوار کے برابر ہے
زیادہ دور نہیں امن و جنگ آپس میں
یہ فاصلہ تری تلوار کے برابر ہے
تجھے خبر نہیں یہ ایک بار کا انکار
ہزار بار کے اقرار کے برابر ہے
کھلی ہے اور کوئی گاہک ادھر نہیں آتا
دکانِ خواب کہ بازار کے برابر ہے
ہو اس کے بعد...