زندگی موت کے پہلو میں بھلی لگتی ہے
گھاس اس قبر پہ کچھ اور ہری لگتی ہے
روز کاغذ پہ بناتا ہوں میں قدموں کے نقوش
کوئی چلتا نہیں اور ہمسفَری لگتی ہے
آنکھ مانوسِ تماشا نہیں ہونے پاتی
کیسی صورت ہے کہ ہر روز نئی لگتی ہے
گھاس میں جذب ہوئے ہوں گے زمیں کے آنسو
پاؤں رکھتا ہوں تو ہلکی سی نمی لگتی...