پھر وداع و وصل پر ہوں گی خیال آرائیاں
سو گیا ہے شہر، جاگ اٹھنے کو ہیں تنہائیاں
شاخِ دل سے آرزوؤں کے پرندے اڑ گئے
بے طلب ہیں اب بہاروں کی چمن آرائیاں
ایک نوحہ سا ابھرتا ہے لبِ احساس پر
آہ! وہ عہدِ جنوں کی انجمن آرائیاں
درد بن کر جاگتا ہے جب شبِ غم کا سکوت
بولنے لگتی ہیں یادوں کی گھنی پرچھائیاں...
کیا زیست کی بنیاد فسانوں پہ رہے گی
یہ دھند سی اب کتنے زمانوں پہ رہے گی
ہر ایک مکیں جائے اماں ڈھونڈ رہا ہے
کب تک یہ کڑی دھوپ مکانوں پہ رہے گی
ہر سنگِ سیہ دل کو جلا دے گی مری آنکھ
سورج کی کرن بن کے چٹانوں پہ رہے گی
ہر شہر میں ہر دشت میں زر آن بسا ہے
اب زندگی جنگل میں مچانوں پہ رہے گی
محنت کا...
انتظار کا سر سے جب عذاب اترے گا
زر نگار چہرے سے ہر نقاب اترے گا
زرد خشک موسم میں حوصلے جواں رکھنا
آسمان سے پانی بے حساب اترے گا
لازوال خوشبو سے دل کی بزم مہکے گی
آرزو کی ٹہنی سے جب گلاب اترے گا
برق و باد میں ہم نے اپنے گھر بسائے ہیں
ہم پہ اب خلاؤں سے کیا عذاب اترے گا
چاندنی بچھی ہو گی شب...
وہ محفلیں، وہ مصر کے بازار کیا ہوئے
اے شہرِِ دل! ترے در و دیوار کیا ہوئے
ڈسنے لگی ہیں ہم کو زمانے کی رونقیں
ہم جرمِ عاشقی کے سزاوار کیا ہوئے
اتنی گریز پا تو نہ تھی عمرِ دوستی
اے خندہء خفی ترے اقرار کیا ہوئے
پھولوں نے بڑھ کے پاؤں میں زنجیر ڈال دی
وارفتگی میں مائلِ گلزار کیا ہوئے
جن کا جمال...
درد کو لذت ملی، زخموں کو گہرائی ملی
عشق کی محفل میں یوں ہم کو پذیرائی ملی
وحشتِ دل کا تو شاید سوچ لیتے کچھ علاج
آرزو تو دل سے بڑھ کر ہم کو سودائی ملی
بے مروت موسموں کا کرب نازل ہو گیا
جب بھی پھولوں سے ہمیں بوئے شناسائی ملی
رازِ دل اپنی زباں پر تو کبھی آیا نہ تھا
جب ملی تیرے حوالے سے ہی...
یہ کاروبارِ چمن اس نے جب سنبھالا ہے
فضا میں لالہ و گُل کا لہو اچھالا ہے
ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں چراغِ آخرِ شب
ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے
ہجومِ گُل میں چہکتے ہوئے سمن پوشو!
زمینِ صحنِ چمن آج بھی جوالا ہے
ہمارے عشق سے دردِ جہاں عبارت ہے
ہمارا عشق، ہوس سے بلند و بالا ہے
سنا ہے آج کے دن...
یادگارِ بادہ و پیمانہ ہیں
ہم چراغِ کشتۂ میخانہ ہیں
چند تنکوں میں نہ تھا لطفِ بہار
چند شعلے زینتِ کاشانہ ہیں
ہر حقیقت ہے فریبِ اعتبار
یہ حسیں جلوے اگر افسانہ ہیں
ہم بھی مہر و ماہ سے باتیں کریں
ہم بھی عکسِ جلوۂ جانانہ ہیں
شب جو تھے محوِ طوافِ شمعِ ناز
صبحدم خاکسترِ پروانہ ہیں
بُت پرستو...
موسم بدلا، رُت گدرائی اہلِ جنوں بے باک ہوئے
فصلِ بہار کے آتے آتے کتنے گریباں چاک ہوئے
گُل بوٹوں کے رنگ اور نقشے، اب تو یونہی مٹ جائیں گے
ہم کہ فروغِ صبحِ چمن تھے، پابندِ فتراک ہوئے
مہرِ تغیّر اس دھج سے آفاق کے ماتھے پر چمکا!
صدیوں کے افتادہ ذرّے، ہم دوشِ افلاک ہوئے
دل کے غم نے دردِ جہاں سے...
غزلِ
ظہیرکاشمیری
ساغراُچھل رہے تھے جدھر دیکھتے رہے
ہر شے میں اُن کا حُسنِ نظر دیکھتے رہے
گلشن کو ہم برنگِ دِگر دیکھتے رہے
ہر گام پر خزاں کا خطر دیکھتے رہے
ہم نے تو کروَٹوں میں جوانی گزار دی
حسرت سے بزمِ غیر کا در دیکھتے رہے
وہ جُنبش نقاب کا منظر نہ پوچھئے
کیا دیکھنا تھا، اپنا جگر دیکھتے رہے...
شاہدہ
کسی سنولائی ہوئی شام کی تنہائی میں
دو سرکتے ہوئے سایوں میں ہوئی سرگوشی
بات چھوٹی تھی --- مگر پھیل کے افسانہ بنی
میں نے اکثر یہی سوچا --- ترا خوش رنگ بدن
نقرۂ ناب کا ترشا ہوا ٹکڑا ہو گا
دودھیا ۔۔۔۔۔ سرد ۔۔۔۔ حرارت سے تہی
جس پہ طاری ہو خود اپنے ہی تصور کا جمود
کوئی اعجازِ پرستش...
ساغر اچھل رہے تھے جدھر دیکھتے رہے
ہر شے میں ان کا حسنِ نظر دیکھتے رہے
گلشن کو ہم برنگِ دگر دیکھتے رہے
ہر گام پر خزاں کا خطر دیکھتے رہے
ہم نے تو کروٹوں میں جوانی گزار دی
حسرت سے بزمِ غیر کا در دیکھتے رہے
وہ جنبشِ نقاب کا منظر نہ پوچھیے
کیا دیکھنا تھا اپنا جگر دیکھتے رہے
وہ بار بار...
تری چشمِ طرب کو دیکھنا پڑتا ہے پرنم بھی
محبت خندۂ بے باک بھی ہے گریہ غم بھی
تھکن تیرے بدن کی عذرکوئی ڈھونڈ ہی لیتی
حدیثِ محفلِ شب کہہ رہی ہے زلفِ برہم بھی
بقدرِ دل یہاں سے شعلۂ جاں سوز ملتا ہے
چراغِ حسن کی لو شوخ بھی ہے اور مدہم بھی
مری تنہائیوں کی دل کشی تیری بلا جانے
مری تنہائیوں سے پیار...
غزل
لوحِ مزار دیکھ کے جی دنگ رہ گیا
ہر ایک سر کے ساتھ فقط سنگ رہ گیا
بدنام ہو کے عشق میں ہم سرخرو ہوئے
اچھا ہوا کہ نام گیا ننگ رہ گیا
ٴ
ہوتی نہ ہم کو سایہء دیوار کی تلاش
لیکن محیطِ زیست بہت تنگ رہ گیا
سیرت نہ ہو تو عارض و رخسار سب غلط
خوشبو اڑی تو پھول فقط رنگ رہ گیا
اپنے گلے...