ترکِ وطن
مرہموں کی صورت میں زہر بھی ملے ہم کو
نشتروں کے دھوکے میں وار بھی ہوئے اکثر
منزلوں کی لالچ میں راستے گنوا ڈالے
رہبروں کی چاہت میں خوار بھی ہوئے اکثر
ہر فریب ِتازہ کومسکرا کے دیکھا تھا
دل کو عہدِ رفتہ کےطور ابھی نہیں بھولے
چشم ِخوش گما ں گرچہ تیرگی میں الجھی تھی
خواب دیکھنا لیکن ہم...