،ظہیراحمدظہیر کی شاعری

  1. ظہیراحمدظہیر

    واقعہ آپ نے پورا تو سنایا ہی نہیں

    ایک سادہ سی غزل آپ صاحبانِ ذوق کے پیشِ خدمت ہے ۔ پچھلے برس وطنِ عزیز میں بالخصوص جو صورتحال رہی اس کے تجزیے اور اس پر نقد و نظر کی کچھ جھلکیاں ان اشعار میں شاید آپ کو نظر آئیں ۔ امید ہے کہ کچھ اشعار آپ کو پسند آئیں گے۔ گر قبول افتد زہے عز و شرف! *** واقعہ آپ نے پورا تو سنایا ہی نہیں میرے...
  2. ظہیراحمدظہیر

    تہمتِ زر سے تہی کیسہ و کاسہ نکلے

    احبابِ کرام !ایک غزل آپ صاحبانِ ذوق کی خدمت میں پیش ہے ۔ اس غزل کے کچھ اشعار تقریباً دو ڈھائی سال پہلے ہوئے لیکن اس کی تکمیل رواں سال میں ہوئی ۔ امید ہے کہ ایک دو اشعار ضرور ڈھنگ کے ہوں گے اور آپ کو پسند آئیں گے ۔ آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر! ٭٭٭ تہمتِ زر سے تہی کیسہ و کاسہ نکلے میرے...
  3. ظہیراحمدظہیر

    ہاتھوں میں لئے سنگ کی سوغات چلی ہے

    ہاتھوں میں لئے سنگ کی سوغات چلی ہے اُترے گی مرے گھر ہی جو بارات چلی ہے ملتے ہیں گھڑی بھر کو دکھانے کیلئے زخم یاروں میں نئی طرزِ ملاقات چلی ہے لگتا ہے کہ افسانہء رسوائی بنے گی وہ بات جو اغیار سے بے بات چلی ہے جو عشق نے چاہا ہے وہی کر کے دکھایا کب دل کے حضور اپنی کوئی بات چلی ہے پھر کوئے...
  4. ظہیراحمدظہیر

    میں روز اپنے لئے ضابطے بناتا ہوں

    میں روز اپنے لئے ضابطے بناتا ہوں پھر اُن کو توڑتا ہوں اور نئے بناتا ہوں پہنچ بھی جاؤں کہیں میں تو گھر نہیں کرتا نئے سفر کیلئے راستے بناتا ہوں مقیمِِ دل ہوں میں ، امید نام ہے میرا میں خواب بُنتا ہوں اور واقعے بناتا ہوں میں ٹکڑے جوڑ کے ٹوٹے ہوئے چراغوں کے ہوا کے سامنے بیٹھا دیئے...
  5. ظہیراحمدظہیر

    پھر نورِ محبت لئے خورشید ِ بہاراں

    پھر نور ِ محبت لئے خورشید ِ بہاراں گلشن میں ہمارے بھی کرے عید ِبہاراں ہر بار خزاں لُوٹ کے لے جاتی ہے گلشن ہم از سر ِ نو کرتے ہیں امید ِ بہاراں موسم کی گواہی سنو گلیوں میں نکل کر ڈھونڈو نہ دریچوں سے اسانید ِ بہاراں سب رنگ بسنتی ہیں پتنگوں کے فضا میں اور کالی زمیں کرتی ہے...
  6. ظہیراحمدظہیر

    ملول خاطر و آزردہ دل ، کبیدہ بدن

    ملول خاطر و آزردہ دل ، کبیدہ بدن شب ِ وصال میں روتے ہیں غم گزیدہ بدن علاج ِ زخم ِ تمنا کو چاہئیے مرہم قلم کی نوک سے سلتے نہیں دریدہ بدن اٹھائیں شاہ پہ کیسے ہم انگلیاں لوگو ! جلوس ِ شاہ میں عریاں ہیں برگزیدہ بدن شرف یہ ملتا نہیں ہر کشیدہ قامت کو کہ اترے دارکے...
  7. ظہیراحمدظہیر

    سنگ آئے کہ کوئی پھول ، اٹھا کر رکھئے

    سنگ آئے کہ کوئی پھول ، اٹھا کر رکھئے جو ملے نام پر اُس کے وہ سجا کر رکھئے سجدہء عجز سے بڑھ کر نہیں معراج کوئی سربلندی ہے یہی سر کو جھکا کر رکھئے دل پہ اُترا ہوا اک حرفِ محبت نہ مٹے اسمِ اعظم ہے یہ تعویذ بنا کر رکھئے گر کے خاشاک ہوا جس میں انا کا شیشم ہے وہی خاکِ شفا اُس کو اٹھا کر...
Top