دانش و فہم کا جو بوجھ سنبھالے نکلے
ان کے اذہان پہ افکار پہ جالے نکلے
میں یہ سمجھا کہ کوئی نرم زمیں آ پہونچی
غور سے دیکھا تو وہ پاؤں کے چھالے نکلے
زخم کھا کر یہ تھی خوش فہمی کہ مر جائیں گے
دوستو ہم تو بڑے حوصلے والے نکلے
دل ٹٹولا شب تنہائی تو محسوس ہوا
ہم بھی اے دوست ترے چاہنے والے نکلے
آج کے...
اپنی نفرت کو جو زنجیر نہیں کر سکتے
وہ کبھی خواب کو تعبیر نہیں کر سکتے
فیصلے وقت ہی تحریرکیا کر تا ہے
آپ چاہیں بھی تو تحریر نہیں کر سکتے
بس یہی بات بنی اپنی تباہی کا سبب
اپنے جذبات کو تصویر نہیں کر سکتے
آپ سچے ہیں اگر آپ کا دعویٰ ہےتو کیوں
ایسی سچائی کی تشہیر نہیں کر سکتے
فاتحِ شہرِ جنوں...