علی وقار
محفلین
اے دامنِ نگاہ! وہ دھبا نہیں رہا
اِس دشت میں اِک آبلہ پا تھا، نہیں رہا
۔۔۔
دُنیا نے اُس کو رنگ لیا اپنے رنگ میں
اٹھ، اے سرِ نیاز! وہ یکتا نہیں رہا
۔۔۔
رُسوا نہ ہو، غبارِ نواحِ دیارِ دِل!
اُس کی گلی میں بھی کوئی اُس سا نہیں رہا
۔۔۔
پہلے سے دوست ہیں نہ وہ پہلے سی دوستی
کس سے کہیں کہ شہر میں کیا کیا نہیں رہا
۔۔۔
کب منزلِ مراد وہ رنگِ سخن نہ تھا
کب مرکزِ نگاہ وہ چہرہ نہیں رہا
۔۔۔
پیڑوں کے مول بِک گئے چڑیوں کے غول بھی
کیا ظلم ہے کہ ظلم کا چرچا نہیں رہا
۔۔۔
خالد وہ طبل و نَے، وہ حدی خواں نہیں رہے
یہ قافلہ بھی زمزمہ آرا نہیں رہا
اِس دشت میں اِک آبلہ پا تھا، نہیں رہا
۔۔۔
دُنیا نے اُس کو رنگ لیا اپنے رنگ میں
اٹھ، اے سرِ نیاز! وہ یکتا نہیں رہا
۔۔۔
رُسوا نہ ہو، غبارِ نواحِ دیارِ دِل!
اُس کی گلی میں بھی کوئی اُس سا نہیں رہا
۔۔۔
پہلے سے دوست ہیں نہ وہ پہلے سی دوستی
کس سے کہیں کہ شہر میں کیا کیا نہیں رہا
۔۔۔
کب منزلِ مراد وہ رنگِ سخن نہ تھا
کب مرکزِ نگاہ وہ چہرہ نہیں رہا
۔۔۔
پیڑوں کے مول بِک گئے چڑیوں کے غول بھی
کیا ظلم ہے کہ ظلم کا چرچا نہیں رہا
۔۔۔
خالد وہ طبل و نَے، وہ حدی خواں نہیں رہے
یہ قافلہ بھی زمزمہ آرا نہیں رہا
آخری تدوین: