بھاائی عباس اعوان صاحب۔ صوفی تبسم صاحب کی جو غزل آپ کو درکار ہے وہ حسبِ فرمائش پیشِ خدمت ہے۔
غزل
از: صوفی تبسم
ترے بزم میں آنے سے اے ساقی چمکے میکدہ جامِ شراب چمکے
ذرہ ذرہ نظر آئے ماہ پارہ گوشہ گوشہ مثلِ آفتاب چمکے
میری جان یہ شان سبحان اللہ تیرا حُسن یوں زیرِ نقاب چمکے
جیسے شمع قندیل میں ہو روشن جیسے بادلوں میں ماہتاب چمکے
میخوار ہیں سارے اداس بیٹھے سُونی پڑی ہے تیرے بغیر محفل
تو جو آئے تو ساغر و جام چھلکے تُو پلائے تو رنگِ شراب چمکے
یہ شباب یہ حُسن یہ ناز کیا ہے اِک نمود ہے عارضی زندگی کی
صحنِ باغ میں یونہی گلاب مہکے سطح آب پہ یونہی حباب چمکے
شبِ ہجر کی یاس انگیزیوں میں اُبھری اس طرح یادِ وصال تیری
جیسے شام کی دھندلی روشنی میں دُور اک موجِ سراب چمکے
لائے تاب اتنی چشمِ شوق کیونکر، دیکھے کون اس کے بےنقاب جلوے
جِس کے رُوئے درخشاں پہ اے صوفی بڑھ کے زلف سے کہیں نقاب چمکے
شاعر : صوفی تبسم
حوالہ : کلیاتِ صوفی تبسم
صفحہ نمبر : 107
ناشر: الحمد پبلی کیشنز، رانا چیمبرز۔ سیکنڈ فلور۔ چوک پُرانی انارکلی۔ لیک رو
ڈ ۔ لاہور
@ الف عین محمد وارث محمد احمد محمد خلیل الرحمٰن عباس اعوان محمد فاتح