anwarjamal
محفلین
میرا بیٹا مسکرا رہا ھے ،،
، مگر اس کا باپ ذہنی اضطراب اور فکر _ معاش کے سبب اس کا ساتھ نہیں دے پاتا ،،،
وہ ابھی صرف پانچ ماہ کا ھے ،، اس کی باتیں اوں آں سے آگے نہیں بڑھتیں یا پھر وہ کلکاریاں مارتا ھے اور دل کھول کر مسکراتا ھے ،،،
میں جب صبح آفس کیلیئے نکل رہا ہوتا ہوں اور اس پر ایک آخری الوداعی نظر ڈالتا ہوں تو لگتا ھے جیسے وہ مجھے حسرت سے دیکھ رہا ہو اور کہہ رہا ہو ،،پاپا جی مجھے کیا چاہئیے ،ایک فیڈر دودھ ؟ اس کیلیئے آپ دن بھر نظروں سے اوجھل رھیں گے اور رات کو اس وفت آئيں گے جب میری آنکھیں نیند سے بوجھل ہو کر بند ہو چکی ہوں گی اور مجھے دیکھ کر آپ یاسیت سے سوچيں گے کہ آج بھی میں اپنے بیٹے کو گود میں لے کر کھلا نہیں سکا اور اسے گھر سے باہر تازہ ہوا میں نہیں لے جا سکا ،،،
گویا میرے بیٹے کیلیئے ایک فیڈر دودھ بھی عیاشی کی طرح ھے ، وہ شاید اس سے کم میں بھی گزارہ کرنے کیلیئے تیار ہو سکتا ھے اگر اس کا باپ اس کے ساتھ رھے ،،،
میرا بیٹا مسکرا رہا ھے ،وہ پنگوڑے میں ھے اس کی ماں اسے جھولا جھلا رہی ھے اور کچھ ان دیکھی پریاں اسے کہانی سنا رہی ہیں ،، پرستان کی کہانی یا پھر شاید کسی ایسے نگر کی کہانی جہاں انسان اندیشہ ء سود و زیاں سے پاک زندگی گزارتے ہیں ،،،جہاں خوشیاں بکھری ہوتی ہیں ،، جہاں روزی روٹی کی زیادہ فکر نہیں ہوتی ، جہاں کوئی باپ گھر سے نکلتا ھے تو شام کے سائے پھیلنے سے پہلے ہی واپس آ جاتا ھے ،، اور اپنے بچوں کیلیئے رنگ برنگے کھلونے اور ٹافیاں لاتا ھے ،،،
پتہ نہیں کیوں میرا بیٹا ان کہانیوں پر بہت یقین رکھتا ھے اور جب اس کی ماں جھولا جھلا رہی ھو اور اور پریاں کہانی سنا رہی ہوں تو اس کے چہرے پر خوشیوں کی پرچھائیاں رقص کرنے لگتی ہیں اور وہ مسکرانے لگتا ھے ،،، اور مطمئن ہو کر خود کو نیند کی آغوش میں دے دیتا ھے ،،
،،، انور جمال انور ،،
، مگر اس کا باپ ذہنی اضطراب اور فکر _ معاش کے سبب اس کا ساتھ نہیں دے پاتا ،،،
وہ ابھی صرف پانچ ماہ کا ھے ،، اس کی باتیں اوں آں سے آگے نہیں بڑھتیں یا پھر وہ کلکاریاں مارتا ھے اور دل کھول کر مسکراتا ھے ،،،
میں جب صبح آفس کیلیئے نکل رہا ہوتا ہوں اور اس پر ایک آخری الوداعی نظر ڈالتا ہوں تو لگتا ھے جیسے وہ مجھے حسرت سے دیکھ رہا ہو اور کہہ رہا ہو ،،پاپا جی مجھے کیا چاہئیے ،ایک فیڈر دودھ ؟ اس کیلیئے آپ دن بھر نظروں سے اوجھل رھیں گے اور رات کو اس وفت آئيں گے جب میری آنکھیں نیند سے بوجھل ہو کر بند ہو چکی ہوں گی اور مجھے دیکھ کر آپ یاسیت سے سوچيں گے کہ آج بھی میں اپنے بیٹے کو گود میں لے کر کھلا نہیں سکا اور اسے گھر سے باہر تازہ ہوا میں نہیں لے جا سکا ،،،
گویا میرے بیٹے کیلیئے ایک فیڈر دودھ بھی عیاشی کی طرح ھے ، وہ شاید اس سے کم میں بھی گزارہ کرنے کیلیئے تیار ہو سکتا ھے اگر اس کا باپ اس کے ساتھ رھے ،،،
میرا بیٹا مسکرا رہا ھے ،وہ پنگوڑے میں ھے اس کی ماں اسے جھولا جھلا رہی ھے اور کچھ ان دیکھی پریاں اسے کہانی سنا رہی ہیں ،، پرستان کی کہانی یا پھر شاید کسی ایسے نگر کی کہانی جہاں انسان اندیشہ ء سود و زیاں سے پاک زندگی گزارتے ہیں ،،،جہاں خوشیاں بکھری ہوتی ہیں ،، جہاں روزی روٹی کی زیادہ فکر نہیں ہوتی ، جہاں کوئی باپ گھر سے نکلتا ھے تو شام کے سائے پھیلنے سے پہلے ہی واپس آ جاتا ھے ،، اور اپنے بچوں کیلیئے رنگ برنگے کھلونے اور ٹافیاں لاتا ھے ،،،
پتہ نہیں کیوں میرا بیٹا ان کہانیوں پر بہت یقین رکھتا ھے اور جب اس کی ماں جھولا جھلا رہی ھو اور اور پریاں کہانی سنا رہی ہوں تو اس کے چہرے پر خوشیوں کی پرچھائیاں رقص کرنے لگتی ہیں اور وہ مسکرانے لگتا ھے ،،، اور مطمئن ہو کر خود کو نیند کی آغوش میں دے دیتا ھے ،،
،،، انور جمال انور ،،