anwarjamal
محفلین
نجانے کب کسی کی آگہی زباں کھولے
خموش ہو کے سنو جب کوئی زباں کھولے
یہ باغ_ شعر و ادب ہے مگر ضروری نہیں
ہو جس کا پھول سا چہرہ وہی زباں کھولے
پھر اس کے بعد اندھیرے کی حیثیت کیا ہے
چراغ جلتے ہی جب روشنی زباں کھولے
پتہ تو ہو کہ اسے کس نے بے گناہ مارا
کوئی تو بڑھ کے کسی لاش کی زباں کھولے
بتاؤ کیسے رہوں چپ بوقت مدہوشی
مرا شعور تو اس وقت ہی زباں کھولے
پھر اس کے بعد نمٹ لیں گے سب سے اے انور
یہ شرط ہے کہ تو سہمی ہوئی زباں کھولے
انور جمال انور
خموش ہو کے سنو جب کوئی زباں کھولے
یہ باغ_ شعر و ادب ہے مگر ضروری نہیں
ہو جس کا پھول سا چہرہ وہی زباں کھولے
پھر اس کے بعد اندھیرے کی حیثیت کیا ہے
چراغ جلتے ہی جب روشنی زباں کھولے
پتہ تو ہو کہ اسے کس نے بے گناہ مارا
کوئی تو بڑھ کے کسی لاش کی زباں کھولے
بتاؤ کیسے رہوں چپ بوقت مدہوشی
مرا شعور تو اس وقت ہی زباں کھولے
پھر اس کے بعد نمٹ لیں گے سب سے اے انور
یہ شرط ہے کہ تو سہمی ہوئی زباں کھولے
انور جمال انور