،، فارم ہاؤس ،،

anwarjamal

محفلین
ملنگو ،، خدا جھوٹ نہ بلوائے جن دنوں میں آٹھویں کلاس میں پڑھتا تھا اور مسیں میری بھیگ رہی تھیں ھمارے علاقے میں اچانک کیرم کی وبا پھوٹ پڑی ،،

جگہ جگہ کیرم کلب کھل گئے اور ھم جیسے گلی ڈنڈا کھیلنے والے قدرے مہذب ہو کر باقاعدگی سے ان میں شرکت فرمانے لگے ،،

میں اس بیماری کا خاص شکار ہوا تھا اس لئے اکثر اسکول سے غیر حاضر ہو کر سارا سارا دن کسی نہ کسی کیرم کلب میں پایا جاتا ،،
اس کا فائدہ یہ ہوا کہ بہت جلد اپنے علاقے میں چمپیئن بن گیا ،،
بڑے بڑے کھلاڑی میرے آگے پٹ جاتے ،،

لیکن ہر سیر کو سوا سیر کے مصداق ایک بندہ زاھد نام کا تھا جسے میں کبھی شکست نہیں دے پایا.

وہ حقیقی ہیرو تھا ،یہ لمبا تڑنگا بھاری بھرکم جسے موٹا ہرگز نہیں کہا جا سکتا ،، وہ بلڈر تھا اور ایک بار مسٹر لاہور کا ٹائٹل بھی جیت چکا تھا ،،
اس کا جسم دیکھ کر ہمارے علاقے کے سبھی جوانوں میں باڈی بلڈنگ کا شوق اٹھا اور دن رات مشقیں ہونے لگیں ،،
تھوڑا بہت جسم تو میں نے بھی بنا لیا تھا مگر اب بیس بائیس سالوں بعد کاٹو تو لہو نہیں نکلے گا ،،

خیر ،، ان دنوں میں سارا دن کیرم کلب میں زاھد بھائی کا انتظار کرتا رہتا کہ وہ آئیں تو آنکھیں ٹھنڈی ہوں،،

وہ میرا آئیڈیل تھا اور مجھے اس سے بڑی ہی محبت اور دوستی تھی ،،
دوسرے نمبر پر بیسٹ آف دی بیسٹ پلئیر ،،پیارے لال ،،تھے جانے ان کا اصلی نام کیا تھا ،،ان دنوں وی سی آر بھی نیا نیا آیا تھا انڈین فلمیں دیکھ کر سب کے نام رکھے جاتے تھے ،،

اس دن کیرم کلب میں بڑا رش تھا جب اچانک خبر پہنچی کہ پیارے لال نے خودکشی کر لی ہے ،،

لڑکے سب چھوڑ چھاڑ کر پیارے لال کے گھر کی طرف بھاگے ،،

میں بھی بھاگا ،میرے لیے یہ نئی چیز تھی ،، میں دیکھنا چاہتا تھا کہ خودکشی کیا ہوتی ہے اور اسے کیسے کرتے ہیں ،،

پیارے لال پنکھے سے لٹک رہا تھا ،،

زاھد نے آگے بڑھ کر جلدی سے اسے کندھے پر اٹھا لیا اور اس کی گردن سے لپٹی ڈوری کھولنے لگا ،،
اس کے گھر کا واحد فرد یعنی اس کی ماں غش کھا کر بیہوش ھو چکی تھی ،،

کئی دنوں بعد میں نے زاھد سے پوچھا کہ آخر پیارے لال کیوں مرا،،
اس نے کہا لڑکی کا چکر تھا ،،

میری عمر اس وقت اتنی نہیں تھی کہ میں ،،لڑکی کا چکر ،،فوراً سمجھ جاتا ،،

کیا مطلب لڑکی کا چکر تھا زاھد بھائی ؟ میں نے پوچھا

زاھد نے کہا یار وہ جس لڑکی سے محبت کرتا تھا اس کی شادی کسی اور سے ہو گئی ،،،

میں خاموش رہا ،،مزید سوالات کی ہمت نہ ہوئی ،،حالانکہ مجھے یہ بات بھی سمجھ میں نہیں آرہی تھی کہ اگر اس لڑکی کی شادی کسی اور سے ہو گئی تھی تو اس میں مرنے والی کیا بات تھی ،پیارے لال کسی اور سے شادی کر لیتا ،،

جذباتی لڑکا تھا وہ ،،زاھد نے مزید کہا بہت سمجھایا اسے کہ اتنا سیریس ہونے کی ضرورت نہیں ،،لڑکیوں کیلئے سیریس نہیں ہوا کرتے ،بس مطلب نکالو اور چھوڑ دو،میری طرح ،،مجھے دیکھو ہزاروں لڑکیاں مرتی ہیں میں کسی کیلئے دیوانہ نہیں ،،

زاھد اٹھا اور چلا گیا ، پیچھے میں سوچتا رہا کہ ہزاروں لڑکیاں مرتی ہیں ،لڑکیوں کیلئے سیریس نہیں ہوتے بس اپنا کام نکالتے ہیں ،،ان سب باتوں کیا مطلب ھے آخر ،،

ان دنوں ہم لوگ بہت بھولے بابو ہوا کرتے تھے ،،وہ دور ہی ایسا تھا نہ سیل فون اس قدر عام تھے نہ سی ڈی اور ڈی وی ڈی پلیئر تھا نہ انٹرنیٹ اور نہ پورنو گرافی ،،
سننے میں آیا ہے کہ اس دور میں نکاح پڑھانے والے مولوی صاحب کو یہ ٹاسک بھی دیا جاتا تھا کہ وہ تنہائی میں منڈے کو یعنی دولہے راجہ کو لے جا کر ذرا سمجھا دیں کہ آج رات کیا کچھ کرنا ہے ،،
کچھ باخبر نوجوان تو مولوی صاحب کی پند و نصائح پر محض شرما کے رہ جاتے اور کچھ واقعی ایسے ہوتے تھے جو منہ پھاڑے حیرت سے مولوی صاحب کو تکتے اور اگلے ہی دن سے ان کی لاٹری لگ جاتی ،،
خیر سننے میں تو یہ بھی آیا ھے کہ ایک لڑکی کو بارات والے دن اسکی بھابیاں سمجھا رہی تھیں کہ دیکھ لڑکی اس اس طرح کے معاملات ہوں گے ڈرنا مت کچھ نہیں ہو گا تو لڑکی بولی َ،،لو اس میں ڈرنے کی کیا بات ھے یہ حرکت تو زمیندار کا لڑکا اکثر میرے ساتھ کرتا ہے ،،
بہرحال جب میں بڑا ہوا اور میٹرک میں اے گریڈ لے کر اسکول سے نکلا تو کافی کچھ جان چکا تھا ،،مجھے پیارے لال کی موت کا بہت صدمہ تھا مگر اب میں بھی ایک لڑکی کے ،،چکر ،، میں پڑ چکا تھا ،،

زاھد نے کیرم کلب آنا ترک کردیا تھا ،،پتہ نہیں کیوں اب وہ اکثر بیمار رہنے لگا تھا ،، گھر سے بھی بہت کم نکلتا ،،ایک دن راستے میں ملا تو میں نے خیریت دریافت کی ،،

وہ سوکھ گیا تھا ،اس کے بازوؤں کی مچھلیاں اور باڈی غائب تھی ،،
کہنے لگا پیشاب کے راستے خون کے قطرے آتے ہیں اور یہ عمل سارا دن ہوتا ہے ،،

جانے یہ کونسی بیماری تھی جس نے ایک کڑیل جوان کو آن کی آن میں کھا لیا تھا ،،

کیرم کلب اور اس سے جڑی رونقیں ماند پڑتی چلی گئیں ،،

زاھد کو لاھور کے میو ہسپتال میں داخل کر دیا گیا تھا

کبھی کبھی میں اس سے ملنے چلا جاتا ،،

ایک دن وہ کہنے لگا ،،میں نہیں بچوں گا ،تجھے کوئی پیغام دینا ہے تو دے دے میں اوپر جا کے اللہ میاں کو دے دوں گا ،،

مجھے بڑا ترس آیا ،،میں نے کہا یار آپ کو پتہ نہیں پہلے سے آپ بہت بہتر ہیں اور انشاءاللہ جلد ٹھیک ہو جائیں گے ،

مگر وہ متاثر نہ ہوا ، ہماری طفل تسلیوں کو بخوبی سمجھتا تھا ،،

ایک دن پتہ چلا کہ اس کی حالت بہت ہی خراب ھے ،اور اس کے گھر میں یسین کی پڑھائی شروع ہو چکی ھے تاکہ جان آسانی سے نکل جائے, ڈاکٹروں نے جواب دے کر اسے گھر واپس بھیج دیا تھا ،،

جب میں آخری بار اس سے ملنے گیا تو اس کا چہرہ ہڈیوں کے ڈھانچے کا منظر پیش کر رہا تھا ،،رنگ پیلا اور آنکھوں کے ڈیلے باہر کی طرف نکلے ہوئے ،،

مجھے دیکھ کر دھیرے سے مسکرایا اور بولا ،،

ابے سالے دے دے کوئی پیغام میں اللہ کے پاس جا رہا ہوں ،،

میں اپنے آنسو نہ ضبط کر پایا ،،پھر اس نے مجھے سے کافی دیر تک باتیں کیں ،،وہ اپنی موجودہ حالت کی وجوہات ڈھونڈ چکا تھا ،،اس نے مجھے اپنے گناہوں کی تفصیل بتائی ،خاص طور پر ایک لڑکی سائرہ کا ذکر کیا ،،پھر مجھے ایک فارم ہاؤس میں داخلے کا اجازت نامہ اور ایک چابی دی ،،

میں وہ سامان لے کر گھر واپس آ گیا ،،

تیسرے دن وہ دنیا سے نکل گیا ،،

میں لاہور شہر سے نکل گیا اور کراچی آگیا ،،یہاں آ کر شرافت سے شادی کر لی اور ہنسی خوشی زندگی گزارنے لگا ،،

شادی کے دو سال بعد جب میرے پاس کچھ پیسے جمع ہوئے تو میں نے کہا بیگم صاحبہ چلو تمہیں لاہور دکھا لاؤں کیونکہ جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ جمیا ہی نہیں ،،

میں نے نائٹ کوچ کیلئے دو سیٹیں بک کروائیں اور اگلے روز ھم ٹرین میں بیٹھے مزے مزے کی باتیں کر رہے تھے ،،

میں نے اسے زاھد کے بارے میں بھی بتایا ،،اس نے افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ جس کی موت جیسے لکھی ہو آ کے رہتی ہے ،،

کئی روز تک لاہور شہر اور اپنے گاؤں کے کھیتوں کھلیانوں میں گھومنے پھرنے کے بعد میں نے اپنی وائف سے کہا ،،چلو تمہیں ایک فارم ہاؤس میں لے چلتا ہوں ،،
میرے پاس اس میں داخل ہونے کا اجازت نامہ ہے ،،

ہزاروں مربع میٹر پر پھیلا ہوا وہ فارم ہاؤس سکندر اعظم کے اس باغ کی مثال تھا جس کے لاکھوں مالی تھے ،،

دو چار مالی تو شاید اب بھی تھے مگر اب وہ بات کہاں جب اس باغ کے بڑے مالک زندہ تھے اور ان کے بچے ہنستے کھیلتے قہقہے لگاتے زندگی کے بھر پور دن گزار رہے تھے ،،
سننے میں آتا ہے کہ باپ کے مرنے کے بعد سب ایک ایک کر کے بیرون ملک سدھار گئے اور پیچھے ھ باغ کی حفاظت پر معمور چند مالی اور چوکیدار چھوڑ گئے ،،
میری بیوی وہاں جا کر بہت خوش ہوئی ،،
وہاں طرح طرح کے پودے ،اونچے اونچے درخت،،رنگ برنگے پھول ،پرندے مصنوعی جھیل مچھلیاں ،کیا کجھ نہیں تھا ،،

میری بیوی مسحور ہو گئی ،،کہنے لگی کاش ایسی ہی کوئی جگہ ہمارے پاس بھی ہوتی ،،یہ تو جنت ہے جنت

میں نے اپنی بیوی کا چہرہ دیکھا جو خوشی سے کھل گیا تھا ،،ز
مجھے زاھد کی آواز آئی ،،فارم ہاؤس وہ جگہ ہے جہاں جا کر لڑکیاں دیوانی ہو جاتی ہیں اور اگر آپ انہیں مستقبل کے اچھے اچھے خواب دکھا دو تو ان کا آپ کے چنگل سے بچ نکلنا ممکن نہیں رہتا ،،

مگر سائرہ ایسی لڑکی تھی جس نے بھرپور مزاحمت کی ،اس نے ہاتھ جوڑے ،اللہ رسول کے واسطے دئیے مگر میں نے کہا کیوں گھبراتی ہو ،میں شادی کروں گا تم سے ،وعدہ کرتا ہوں ،،

وہاں میں اسے کئی بار لے گیا ،،کیوں کہ جو لڑکی جتنی زیادہ مزاحمت کرے وہ اتنی ہی اچھی لگتی ہے ،،

میری بیوی نے مجھے ٹہوکا دیا تو میں خیالوں کی دنیا سے باہر نکل آیا ،،
کہاں کھو گئے ،،چلو کشتی میں بیٹھ کر جھیل کی سیر کرتے ہیں ،،اس نے کہا ،،

ھم نے وہاں دن کا ایک بڑا حصہ خرچ کر لیا ،،
شام ہونے سے پہلے ہمیں گھر پہنچنا تھا ،بلآخر ھم نے واپسی کی راہ لی ،،

مگر اس سے پہلے کہ ھم مین گیٹ سے نکل جاتے مجھے کچھ یاد آگیا ،،
میں اسے لے کر فارم ہاؤس کے اس حصے کی طرف گیا جدھر رہائشی کمرے بنے ہوئے تھے ،

مجھے زاھد نے جو چابی دی تھی اس پر کمرے کا نمبر بھی لکھا ہوا تھا ،،

یہاں ایک عرصے سے رہائش متروک تھی اس لیے سبھی کھڑکیاں دروازے بوسیدہ اور گرد سے اٹے ہوئے تھے ،،

تالا زنگ آلود ہو رہا تھا پھر بھی میں نے اسے کھول لیا ،،
میری بیوی منع کر رہی تھی ،،ادھر کیوں آئے ہو ،اب چلو نا گھر ،،

میں نے کہا ،ایک منٹ ڈارلنگ ،اس گناہ گار کمرے کو بھی دیکھ لیں جس کی چابی زاھد کے پاس تھی اور وہ اس لیے تھی کہ فارم ہاؤس کے مالک کا سب سے چھوٹا بیٹا زاھد کا دوست تھا ،،

میں نے جیسے ہی دروازہ کھولا کمرے میں سالوں سے بند ہوا نے سکھ کا سانس لیا اور جلدی سے باہر کی طرف لپکی ،،
میری بیوی نے ناک پر ہاتھ رکھ لیا ،بولی ،کیسی عجیب سی بو ھے یہاں ،،
کمرے میں ایک چھوٹا سا بیڈ تھا اور اس پر بچھا ہوا گدا اور میلی کچیلی چادر گرد سے اٹی ہوئی تھی ،،

میری بیوی کو یہ سب ڈراؤنا لگ رہا تھا جبھی وہ میرے ساتھ آکر چپک گئی تھی ،،

میں نے کہا دیکھ لو یہی ہے وہ گناہوں کا بستر جس نے سائرہ کی جان لے لی ،،

میری بیوی حیران ہوئی ،،تو کیا سائرہ بھی زندہ نہیں ھے ،اس نے پوچھا ،،
 

anwarjamal

محفلین
نہیں ،،اس نے زاھد کی بے وفائی پر زہر کھا لیا تھا ،،
زاھد کو مرتے وقت اسی بات کا افسوس تھا کہ اس نے ہر شخص سے معافی مانگ لی ہے مگر سائرہ سے معافی کیسے مانگے ،وہ زندہ ہی نہیں ،کاش کہ وہ زندہ ہوتی اور مجھے معاف کر دیتی ،،

میری بیوی مجھ سے اور چپک گئی ،،
چلو اب بند کرو اس کمرے کو اور نکلو یہاں سے ،،

میں نے کمرہ لاک کیا اور ھم دونوں کسی انجانے دکھ کے ساتھ آہستہ آہستہ قدموں سے باہر کی طرف بڑھنے لگے ،،

ابھی ھم کچھ ہی دور چلے تھے کہ اچانک اسے کوئی خیال سوجھا اور وہ رک گئی ،،
میں نے پوچھا کیا ہوا ،
اس نے کہا چلو اس بستر کو ھم جلا دیتے ہیں ،،
میں نے کہا پاگل ہو رہی ہو اس سے بھلا کیا ہو گا ،
کہنے لگی اس سے سائرہ کی روح کو چین آجائے گا ،،
میں ہنسنے لگا ،،
او میڈم انڈین چینلز ذرا کم دیکھا کرو،،میں نے کہا ،،یہ آتما واتما انڈیا میں پائی جاتی ہیں یہاں نہیں ،،
مگر اس نے ضد پکڑ لی ،،

واپسی میں جب میں نے چوکیدار سے رخصت لی اور ہاتھ ملایا تو وہ آنکھ مار کر معنی خیز لہجے میں بولا ،،،
کیوں بابو مزہ آیا ؟
میں نے بھی جوابی آنکھ ماری اور کہا کہ ہاں بہت مزہ آیا ،،
گھر آکر بیوی نے پوچھا ،،آپ سے وہ چوکیدار کیا کہہ رہا تھا ؟

میں نے کہا کچھ نہیں وہ اندر کی باتیں جانتا ہے کاش جس وقت ھم وہ بستر کمرے سے نکال کر جلا رہے تھے اسی میں اس چوکیدار کو بھی جلا دیتے ،،،

تحریر ،،انور جمال انور
 
Top