آبی ٹوکول
محفلین
آؤں تیرے مقابل میری مجال کیا ہے
ہیرے کے روبرو یہ شیشہ مثال کیا ہے
دنیا کہ لوگ مجھ کو پہچاننے لگے ہیں
تیری ہے یہ کرامت میرا کمال کیا ہے
یہ کس کی روشنی ہے میں سوچتا ہوں اکثر
آخر یہ زندگی میں حُسن و جمال کیا ہے
تو پاس آئے میرے پھر دور جائے مجھ سے
یہ کیسا ماجرا ہے، آخر یہ چال کیا ہے
اس دشت بیکراں میں مجھ کو کوئی بتائے
بوئے فراق کیا ہے ، رنگ وصال کیا ہے
دنیا کے میکدے میں کب تک پیئوں گا تنہا
تو ہی مجھے بتا دے تیرا خیال کیا ہے
کیوں جانتے ہوئے بھی انجان ہے وہ اعظم
وہ خوب جانتا ہے میرا سوال کیا ہے
اعظم کمال