آؤ پھر شادی کریں
ڈاکٹر عباس متقی
پہلی شادی سے کوئی مطمئن نہیں ہوتا ۔ اگر کوئی مطمئن نظر آتا ہے تو یہ ہماری آنکھوں کا دھوکہ ہے ۔ ذرا اس معصوم مرد کے دل سے پوچھیے جو بادل ناخواستہ پلے باندھ دی گئی بیوی کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور ہے ۔ ذرا ایک ہمدرد و بہی خواہ کی طرح اسکے شب و روز کا جائزہ تو لیجیے ، آپ دیکھیں گے کہ بے چارے کی ہر صبح غم اور شام شام الم ہوا کرتی ہے ۔ ذرا غریب کے دل سے پوچھیے جس میں تمناؤں کے کیسے کیسے ناگفتہ بہ طوفان ہر دم اٹھا کرتے ہیں ۔ خوب صورت اور سلم لڑکیوں کو دیکھ کر جب غریب اپنی بیوی کو دیکھتا ہے تو پھر اپنی بیوی کو نہیں دیکھتا ۔ اسکے دل سے ایک سرد آہ نکلتی ہے اور کنواری دوشیزاؤں کی طرح اس کی آنکھیں شرم و حیا کے سبب آپ ہی آپ جھک جایا کرتی ہیں ۔ کہاں وہ بل کھاتی ہوئی موج سحرانگیز اور کہاں یہ پھیلا ہوا دریا ، کہاں وہ اڑتی ہوئی تتلیاں اور کہاں یہ کھڑک مرغیاں جنہیں ہاتھ لگاؤ تو کاٹ کھانے دوڑیں ۔ کہاں وہ مرمر میں ترشے ہوئے مجسمے اور کہاں یہ بھدے بھدے اجسام ۔ کہاں وہ باد نسیم کے جھونکے اور کہاں یہ شعلہ زن بھٹیوں کی گرم بھاپ ۔ صاحب نظر شرفا حقیقت اور مجاز میں خط تفریق کھینچے بغیر نہیں رہ سکتے اور یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ :
کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس حجاز میں
کہ ہزاروں بندے تڑپ رہے ہیں اسی تصور ناز میں
شہنشاہ ہندوستان ظل سبحانی جلال الدین محمد اکبر نور اللہ مرقدہ کو بھی یہ خبط سوار تھا کہ ان کی مملکت میں بھی سارے مرد اپنی واحد منکوحات سے نہایت خوش اور ہر طرح مطمئن ہیں ۔ وہ تو خیر گزری کہ بیربل نے ظل سبحانی کے کان بھرے کہ جہاں پناہ! حقیقت تو یہ ہے کہ والا جاہ کی مملکت میں کوئی آدمی اپنی بیوی سے مطمئن نہیں ہے ۔ہر شخص عقد ثانی کا متمنی ہے ۔ اگر آپ سارے مردوں کو عقدثانی کا حکم صادر فرمائیں تو بے شمار غریب طبع مردوں پر احسان اکبری ہوگا ۔ یہ سن کر عالم پناہ نے حیرت سے پوچھا کہ بیربل کیا واقعی کوئی آدمی بھی ہماری مملکت میں اپنی بیوی سے مطمئن نہیں ہے ؟ بیربل نے کہا حضور ! جان بخشی ہوتو عرض کروں ، جب عالم پناہ ملکہ معظمہ جودھابائی سے مطمئن نہیں تو سرکار! دوسرے کس کھیت کی مولی ہیں ، لیکن اکبر اعظم نے بیربل کے جواب لا جواب سے مطمئن ہونے کو کو توہین اکبری خیال فرماتے ہوئے حکم صادر فرمایا کہ شہر کے سارے مرد"لال قلعہ" کے میدان میں جمع ہوجائیں مابدولت بہ نفس نفیس حقیقت حال سے خبردار ہوں گے ۔ جب سارے مرد جمع ہوگئے تو اکبر اعظم نے ارشاد فرمایا کہ جو ایک بیوی سے مطمئین ہیں وہ سیدھی جانب ہوجائیں اور جو عقد ثانی کے خواہش مند ہیں وہ بائیں جانب چلے جائیں ، اتنا سننا تھا کہ سارے ہی مرد بائیں جانب چلے گئے ۔ البتہ ایک شخص کو دیکھا کہ افسردہ خاطر ، تنہا بہ تقدیر دائیں جانب کھڑا ہے ۔اکبر نے بیربل پر فاتھانہ نظر دوڑائی اور ارشاد فرمایا کہ بیربل! ایک آدمی تو میری مملکت میں ایسا ہے جو ایک بیوی سے مطمئن ہے ۔ بیرل نے کہا حضور! یہ آدمی پاگل ہے اور خود کو ظل سبحانی کہتا ہے ، اور اس کی بیوی نے اس کو یہاں ٹہرایا ہے ۔۔ یہ دیکھ کر ظل سبحانی نے حکم جاری کردیا کہ جو عقد ثانی کرنا چاہتا ہے شوق سے کرگزرے ، اس پر عتاب اکبر ی نازل نہیں ہوگا ۔
لوگ کہتے ہیں کہ بیوی سب کچھ برداشت کر سکتی ہے لیکن سوکن برداشت نہیں کرسکتی اور ہم کہتے ہیں کہ شوہر اگر سمجھدار ہوتو بیوی میں یہ صلاحیت خودبخود پیدا ہوجاتی ہے اور اگر ہندوستانی واتاورن کے طفیل اگر بیوی میں یہ صلاحیت خودبخود پیدا نہیں ہوتی تو ایک سمجھدار شوہر اپنی بیوی میں اس صلاحیت کو پیدا کرنے کی کوشش شروع کر دیتا ہے ۔ جس کی روشنی میں وہ اپنی سوکن کو "ڈائن" سمجھنے کے بجائے "ڈائنا" سمجھنے لگتی ہے ۔مگر اس میں لگی ہے محنت زیادہ ۔
جاری ۔۔۔