کاشفی
محفلین
غزل
(داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ)
آئینہ تصویر کا تیرے نہ لے کر رکھ دیا؟
بوسے لینے کے لیئے کعبے میں پتھر رکھ دیا
ہم نے اُن کے سامنے اوّل تو خنجر رکھ دیا
پھر کلیجہ رکھ دیا، دل رکھ دیا، سر رکھ دیا
سُن لیا ہے پاس حوروں کے پُہنچتے ہیں شہید
اس لیئے لاشے پہ میرے اُس نے پتھر رکھ دیا
کل چھڑا لیں گے یہ، زاہد، آج تو ساقی کے ہاتھ
رہن اک چلّو پہ ہم نے حوض کوثر رکھ دیا
ذبح کرتے ہی مجھے، قاتل نے دھوئے اپنے ہاتھ
اور خون آلودہ خنجر غیر کے گھر رکھ دیا
زندگی میں پاس سے دم بھر نہ ہوتے تھےجدا
قبر میں تنہا مجھے یاروں نے کیونکر رکھ دیا
زلف خالی ہاتھ خالی کس جگہ ڈھونڈھیں اُسے
تم نے دل لے کر کہاں اے بندہ پرور رکھ دیا؟
داغ کی شامت جو آئی اضطرابِ شوق میں
حالِ دل کمبخت نے سب اُن کے منہ پر رکھ دیا
(داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ)
آئینہ تصویر کا تیرے نہ لے کر رکھ دیا؟
بوسے لینے کے لیئے کعبے میں پتھر رکھ دیا
ہم نے اُن کے سامنے اوّل تو خنجر رکھ دیا
پھر کلیجہ رکھ دیا، دل رکھ دیا، سر رکھ دیا
سُن لیا ہے پاس حوروں کے پُہنچتے ہیں شہید
اس لیئے لاشے پہ میرے اُس نے پتھر رکھ دیا
کل چھڑا لیں گے یہ، زاہد، آج تو ساقی کے ہاتھ
رہن اک چلّو پہ ہم نے حوض کوثر رکھ دیا
ذبح کرتے ہی مجھے، قاتل نے دھوئے اپنے ہاتھ
اور خون آلودہ خنجر غیر کے گھر رکھ دیا
زندگی میں پاس سے دم بھر نہ ہوتے تھےجدا
قبر میں تنہا مجھے یاروں نے کیونکر رکھ دیا
زلف خالی ہاتھ خالی کس جگہ ڈھونڈھیں اُسے
تم نے دل لے کر کہاں اے بندہ پرور رکھ دیا؟
داغ کی شامت جو آئی اضطرابِ شوق میں
حالِ دل کمبخت نے سب اُن کے منہ پر رکھ دیا