آئینہ خانہ تصور میں
میں آنکھیں بند کئے سوچتا رہا لیکن
نہ حافظے نے مدد کی نہ مرنے والوں نے
ہر ایک سالگرہ موم بتّیوں کی طرح
پگھل کے رہ گئی تاریخ کے اندھیروں میں
خیال ہے کہ اک ایسا بھی موڑ آیا تھا
جب انتظار کی ہر بے کراں اندھیری رات
ترے خیال کی آہٹ سے چونک جاتی تھی
تِرے لبوں کی عنایت سے بہت پہلے
ترے لبوں کے تصور سے آنچ آتی تھی
نہ جانے کون سے لمحے نے مجھ کو چھین لیا
نہ جانے کون سی ساعت تری رقیب بنی
اک ایسا غم تھا شبستانِ جسم و جاں پہ مُحیط
جو تیرا غم بھی نہ تھا ، غمِ جہاں بھی نہیں
مِرا دیارِ تمنّا ضرور تھا ، لیکن
دیارِ دل بھی نہیں تھا ، دیارِ جاں بھی نہیں
خوشی بھی تھی کہ یہ سرحد خوشی سے آگے ہَے
فغاں بھی تھی کہ یہ معمُورۂ فغاں بھی نہیں
مری رگوں میں لہُو بن کے رچ گئی تھی وُہ نیند
تِرے بدن کی حلاوت نے جس کی باہوں میں
زمانے بھر کی پُر اسرار خُنکیاں رکھ دیں
تری نگاہ کی شفقت نے جس کی پلکوں پر
لطیف ، نرم ، مِلنسار اُنگلیاں رکھ دیں
اور اس دُھلے ہُوئے لمحے میں ، ایک ساعت میں
تری وفا ، تری آغوش کی حلاوت میں
کِسی نے جیسے مرے دونوں ہات تھام لیے
اُفق کے بعد اُفق آئے ، رنگ رنگ کے دیس
چمکتے ، کوندتے ، سیماب کی طرح بے تاب
نہ آسمان ، نہ دھرتی کا گھُومتا چکّر
نہ ماہتاب کے ٹکڑے ، نہ ریت کے ذرّے
کوئی زمیں بھی نہیں تھی ، کوئی زماں بھی نہیں
دیارِ دل بھی نہیں تھا ، دیارِ جاں بھی نہیں
یہاں بھی ویسے ہی اِنساں تھے جنھیں میں نے
زمیں پہ چھوڑ دیا تھا ، مگر یہاں میرے
اور اُن کے بیج ، آئینہ جمال نہ تھا
سیاہ آنکھوں کے بدلے ، جواں لبوں کے عِوض
ہر ایک شکل کھڑی تھی کوئی دُکان سجائے
ہر اک شکل سے آتی تھی دم بہ دم آواز
" گھڑی ، پُرانی قمیضیں ، دوائیں ، سِگرٹ ۔ چائے"
مصطفیٰ زیدی
مجموعہ کلام :۔ شہرِ آذر
42-44
میں آنکھیں بند کئے سوچتا رہا لیکن
نہ حافظے نے مدد کی نہ مرنے والوں نے
ہر ایک سالگرہ موم بتّیوں کی طرح
پگھل کے رہ گئی تاریخ کے اندھیروں میں
خیال ہے کہ اک ایسا بھی موڑ آیا تھا
جب انتظار کی ہر بے کراں اندھیری رات
ترے خیال کی آہٹ سے چونک جاتی تھی
تِرے لبوں کی عنایت سے بہت پہلے
ترے لبوں کے تصور سے آنچ آتی تھی
نہ جانے کون سے لمحے نے مجھ کو چھین لیا
نہ جانے کون سی ساعت تری رقیب بنی
اک ایسا غم تھا شبستانِ جسم و جاں پہ مُحیط
جو تیرا غم بھی نہ تھا ، غمِ جہاں بھی نہیں
مِرا دیارِ تمنّا ضرور تھا ، لیکن
دیارِ دل بھی نہیں تھا ، دیارِ جاں بھی نہیں
خوشی بھی تھی کہ یہ سرحد خوشی سے آگے ہَے
فغاں بھی تھی کہ یہ معمُورۂ فغاں بھی نہیں
مری رگوں میں لہُو بن کے رچ گئی تھی وُہ نیند
تِرے بدن کی حلاوت نے جس کی باہوں میں
زمانے بھر کی پُر اسرار خُنکیاں رکھ دیں
تری نگاہ کی شفقت نے جس کی پلکوں پر
لطیف ، نرم ، مِلنسار اُنگلیاں رکھ دیں
اور اس دُھلے ہُوئے لمحے میں ، ایک ساعت میں
تری وفا ، تری آغوش کی حلاوت میں
کِسی نے جیسے مرے دونوں ہات تھام لیے
اُفق کے بعد اُفق آئے ، رنگ رنگ کے دیس
چمکتے ، کوندتے ، سیماب کی طرح بے تاب
نہ آسمان ، نہ دھرتی کا گھُومتا چکّر
نہ ماہتاب کے ٹکڑے ، نہ ریت کے ذرّے
کوئی زمیں بھی نہیں تھی ، کوئی زماں بھی نہیں
دیارِ دل بھی نہیں تھا ، دیارِ جاں بھی نہیں
یہاں بھی ویسے ہی اِنساں تھے جنھیں میں نے
زمیں پہ چھوڑ دیا تھا ، مگر یہاں میرے
اور اُن کے بیج ، آئینہ جمال نہ تھا
سیاہ آنکھوں کے بدلے ، جواں لبوں کے عِوض
ہر ایک شکل کھڑی تھی کوئی دُکان سجائے
ہر اک شکل سے آتی تھی دم بہ دم آواز
" گھڑی ، پُرانی قمیضیں ، دوائیں ، سِگرٹ ۔ چائے"
مصطفیٰ زیدی
مجموعہ کلام :۔ شہرِ آذر
42-44