ظہیراحمدظہیر
لائبریرین
آئینہ گر کے دُکھ
پتھرہی رہو ، شیشہ نہ بنو
شیشوں کی ابھی رُت آئی نہیں
اِس شہرمیں خالی چہروں پر
آنکھیں تو اُبھرآئی ہیں مگر
آنکھوں میں ابھی بینائی نہیں
خاموش رہو ، آواز نہ دو
کانوں میں سماعت سوتی ہے
سوچوں کو ابھی الفاظ نہ دو
احساس کو زحمت ہوتی ہے
اظہارِ حقیقت کے لہجے
سننےکا ابھی دستور نہیں
الفاظ و معانی کے رشتے
ذہنوں کو ابھی منظورنہیں
یہ شہر کسی کا شہر ہے کب
یہ لوگ نہیں ہیں سائےہیں
ا ِن سایوں میں کوئی مہر ہے کب
یہ پیاس بڑھانے آئے ہیں
اشکوں سے کہو جم جائیں وہیں
جس چشمہء غم سے پھوٹے ہیں
آہو ں سے کہو تھم جائیں وہیں
یہ جذبے شاید جھوٹے ہیں
مت ہاتھ بڑھاؤ چاہت کا
انجان بنو ، انجان رہو
یہ رسم گراں ہے لوگوں پر
مشکل نہ بنو ، آسان رہو
جو بھول چکے ہومدت سے
اُس درد کو پھر آغاز نہ دو
جانے دو انہیں ، آوازنہ دو
آواز نہ دو ، آواز نہ دو
ظہیر احمد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۲۰۱۲