نور وجدان
لائبریرین
آئینہ ( 2)
کبھی تم نے ندی میں 'ندی ' کا عکس دیکھا ہے؟ کبھی اس عکس میں چُھپے بھید کو تلاشنے کی کوشش کی ہے ؟ آؤ ! ندی میں ڈوب جائیں!!!!
نہیں ! ڈوبنا نہیں ہے !ڈوبنے والے روشنی کو تاریکی نہیں دے سکتے مگر تاریکی میں جا کر روشنی دیتے عدم کی جانب رواں دواں رہتے ہیں ................مجھے ڈوبنا ہے! ڈوب جانے دو ! مٹ جانے دو ! لہریں تو نہیں ہیں ! اس میں مٹ کر مجھ عکس ہوجانے دو.
دھیرج ! دھیرج ! آرام سے ! پیار سے ! پیار کرنا بڑا افضل ہے مگر محبوب ہونا اس سے بھی زیادہ افضل ہے ....!!!
چھن ! چھن ! چھناکے ! آواز کا تاثر غائب ہوگیا ! کیا کوئی ڈوب گیا ہے ؟ کوئی جھلا سا ، بھلا مانس سا بندہ ہے! ڈوب کے بھی کیا کرنا ہے ! سوچتا ہی نہیں! سوچے تو ...!
ندی کا پانی شفافیت سے بھرپور ، ٹھنڈا ، میٹھا ، سرمدی احساس .........! جاوداں ! جاوداں ! جاوداں ! پانی نے ملمع کاری تو نہیں کی .....ملمع تو اتر جاتی ہے ! محبت پر کیسا کھوٹ ...! محبت تو اک احساس ہے ...! اس کو محسوس کرتے کرتے خاک کے ذرے ...! خاک کے ذرے خزاں کی طرح جھڑنے لگے .......! زرد پتے ! سوکھے پتے ! سرخ پتے ! گرتے رہے اور جھڑتے رہے..!
پتوں کا پانی میں کیا کام...! ہے نا ...! پتے تاریکی میں جائیں گے اور ان سے ڈھونڈنے والے راہ پالیں گے...!!!
اچھا ..!! تو یہ بات ہے !! میں خود جھاڑتی ہوں پتوں کو ...! مجھ کو گُلاب پسند ہے ...!مہکتا گلاب ! گلاب ہلکا ہلکا ...پنک سا ...!!! کہاں ملے گا...؟
پت جھڑ کا موسم ! جاناں ! چلا گیا ....! یہ پت جھڑ تو نہیں ! یہ بہار کا موسم ہے ! جمال کا موسم ہے ...!!! گلاب کو موسم ہے !! کہاں ملے گا ..! ڈھونڈ !!! ڈھونڈنے والے نئی دنیا پالیتے ہیں...!!!
میں ندی سے نکل کر گلاب کی خوشبو کے تعاقب میں جانا چاہ رہی تھی ۔۔۔وہ گُلاب جو شجر سے منسلک ہے ۔۔۔اس دنیا میں اس کا ٹھکانہ ہے۔۔۔وہ گُلاب جو سب سے مشرف ہے۔۔۔ !!
ابھی ندی سے پاؤں قدم نکالنا ہی چاہا...انتہائے حیرت ! حیرت نے جُھنجھلا کر مجھ سے پوچھا !
پاؤں کا نشان نہیں.......پاؤں نظر نہیں آرہا ہے .......! ایک پل ..یک ٹک ..! لمحے گُزر گئے..اور گزرتے گزرتے احساس ہوا کہ ہلکا سا عکس پاؤں کا موجوس ہے...میں ندی سے نکلی تو بڑی سرشار تھی...مجھے پاؤں نظر نہیں آرہے تھے مگر میں چل رہی تھی ... جانے کیسے !!
چلتے چلتے ! ہاں چلتے میں مدہوش ہورہی ہوں...مجھے گلاب کی پھول کی مہک آرہی تھی ...یوں لگا زمین نے نغمہ سُنا دیا ہے اور گھومنے لگی ہے اور ایک دم سے کالی گھٹا چھا گئی ہے یا کہ رات نے نیم واہی کی حد کردی ہے ... زمانے کا زمانے مہک رہا ہے ..مکاں سے لامکاں تک نور کی خوشبو ہے...واہ ! واہ! کیسی مسحور کن خوشبو ہے...!!!
میں نے چلتے چلتے ! ہاں چلتے چلتے شجر گلابوں کا دیکھا...... ایک حقیقت! گلاب کا شجر کہاں ہوتا مگر شجر تھا....مجھ میں پھول توڑنے کی ہمت نہ ہوئی مگر میں نے قریب جا کر اپنی حس کو لطافت ضرور دی ...اک عطر تھا...یا کوئی خوشبو کا دریا...میرا روم روم...رگ رگ...خوشبو سے بھر گیا...اور مجھے اپنا ہوش نہ رہا...!
جب مجھے ہوش آیا تب ایک عجب بات ہوئی ۔۔۔! وہ کہ درختوں کو دیکھنے پر درخت مجھ میں نظر آتے۔ پھولوں کو دیکھوں تو پھول میرا وجود۔۔۔خاک کی طرف نگاہ کروں تو خاک مجھے تاکے ہے۔۔ !! مجھے اپنا آپ نظر نہیں آتا مگر مجھ میں ارد گرد کا عکس آئنہ ہونے لگا۔۔۔۔۔! ایک سوچ ہے کہ میں کون ہوں؟ کیا میرا ہے؟ کچھ بھی تو نہیں ہے میرا۔۔۔۔۔! کچھ کیسے ہو۔۔مجھے تو سر مستی آئینہ جات کی بہانے لگی ہے۔۔میں موجود ہو کر بھی موجود نہیں ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
کبھی تم نے ندی میں 'ندی ' کا عکس دیکھا ہے؟ کبھی اس عکس میں چُھپے بھید کو تلاشنے کی کوشش کی ہے ؟ آؤ ! ندی میں ڈوب جائیں!!!!
نہیں ! ڈوبنا نہیں ہے !ڈوبنے والے روشنی کو تاریکی نہیں دے سکتے مگر تاریکی میں جا کر روشنی دیتے عدم کی جانب رواں دواں رہتے ہیں ................مجھے ڈوبنا ہے! ڈوب جانے دو ! مٹ جانے دو ! لہریں تو نہیں ہیں ! اس میں مٹ کر مجھ عکس ہوجانے دو.
دھیرج ! دھیرج ! آرام سے ! پیار سے ! پیار کرنا بڑا افضل ہے مگر محبوب ہونا اس سے بھی زیادہ افضل ہے ....!!!
چھن ! چھن ! چھناکے ! آواز کا تاثر غائب ہوگیا ! کیا کوئی ڈوب گیا ہے ؟ کوئی جھلا سا ، بھلا مانس سا بندہ ہے! ڈوب کے بھی کیا کرنا ہے ! سوچتا ہی نہیں! سوچے تو ...!
ندی کا پانی شفافیت سے بھرپور ، ٹھنڈا ، میٹھا ، سرمدی احساس .........! جاوداں ! جاوداں ! جاوداں ! پانی نے ملمع کاری تو نہیں کی .....ملمع تو اتر جاتی ہے ! محبت پر کیسا کھوٹ ...! محبت تو اک احساس ہے ...! اس کو محسوس کرتے کرتے خاک کے ذرے ...! خاک کے ذرے خزاں کی طرح جھڑنے لگے .......! زرد پتے ! سوکھے پتے ! سرخ پتے ! گرتے رہے اور جھڑتے رہے..!
پتوں کا پانی میں کیا کام...! ہے نا ...! پتے تاریکی میں جائیں گے اور ان سے ڈھونڈنے والے راہ پالیں گے...!!!
اچھا ..!! تو یہ بات ہے !! میں خود جھاڑتی ہوں پتوں کو ...! مجھ کو گُلاب پسند ہے ...!مہکتا گلاب ! گلاب ہلکا ہلکا ...پنک سا ...!!! کہاں ملے گا...؟
پت جھڑ کا موسم ! جاناں ! چلا گیا ....! یہ پت جھڑ تو نہیں ! یہ بہار کا موسم ہے ! جمال کا موسم ہے ...!!! گلاب کو موسم ہے !! کہاں ملے گا ..! ڈھونڈ !!! ڈھونڈنے والے نئی دنیا پالیتے ہیں...!!!
میں ندی سے نکل کر گلاب کی خوشبو کے تعاقب میں جانا چاہ رہی تھی ۔۔۔وہ گُلاب جو شجر سے منسلک ہے ۔۔۔اس دنیا میں اس کا ٹھکانہ ہے۔۔۔وہ گُلاب جو سب سے مشرف ہے۔۔۔ !!
ابھی ندی سے پاؤں قدم نکالنا ہی چاہا...انتہائے حیرت ! حیرت نے جُھنجھلا کر مجھ سے پوچھا !
پاؤں کا نشان نہیں.......پاؤں نظر نہیں آرہا ہے .......! ایک پل ..یک ٹک ..! لمحے گُزر گئے..اور گزرتے گزرتے احساس ہوا کہ ہلکا سا عکس پاؤں کا موجوس ہے...میں ندی سے نکلی تو بڑی سرشار تھی...مجھے پاؤں نظر نہیں آرہے تھے مگر میں چل رہی تھی ... جانے کیسے !!
چلتے چلتے ! ہاں چلتے میں مدہوش ہورہی ہوں...مجھے گلاب کی پھول کی مہک آرہی تھی ...یوں لگا زمین نے نغمہ سُنا دیا ہے اور گھومنے لگی ہے اور ایک دم سے کالی گھٹا چھا گئی ہے یا کہ رات نے نیم واہی کی حد کردی ہے ... زمانے کا زمانے مہک رہا ہے ..مکاں سے لامکاں تک نور کی خوشبو ہے...واہ ! واہ! کیسی مسحور کن خوشبو ہے...!!!
میں نے چلتے چلتے ! ہاں چلتے چلتے شجر گلابوں کا دیکھا...... ایک حقیقت! گلاب کا شجر کہاں ہوتا مگر شجر تھا....مجھ میں پھول توڑنے کی ہمت نہ ہوئی مگر میں نے قریب جا کر اپنی حس کو لطافت ضرور دی ...اک عطر تھا...یا کوئی خوشبو کا دریا...میرا روم روم...رگ رگ...خوشبو سے بھر گیا...اور مجھے اپنا ہوش نہ رہا...!
جب مجھے ہوش آیا تب ایک عجب بات ہوئی ۔۔۔! وہ کہ درختوں کو دیکھنے پر درخت مجھ میں نظر آتے۔ پھولوں کو دیکھوں تو پھول میرا وجود۔۔۔خاک کی طرف نگاہ کروں تو خاک مجھے تاکے ہے۔۔ !! مجھے اپنا آپ نظر نہیں آتا مگر مجھ میں ارد گرد کا عکس آئنہ ہونے لگا۔۔۔۔۔! ایک سوچ ہے کہ میں کون ہوں؟ کیا میرا ہے؟ کچھ بھی تو نہیں ہے میرا۔۔۔۔۔! کچھ کیسے ہو۔۔مجھے تو سر مستی آئینہ جات کی بہانے لگی ہے۔۔میں موجود ہو کر بھی موجود نہیں ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
آخری تدوین: