آئیں ذخیرہ آخرت بنائیں اور اپنی دنیا روشن کریں !!!

imissu4ever

محفلین
Must read pls

*بیوی:* آج دھونے کے لئے زیادہ کپڑے مت نکالنا۔
*شوہر:* کیوں؟
*بیوی:* کام والی ماسی دو دن نہیں آئے گی
*شوہر:* کیوں؟
*بیوی:* اپنی نواسی سے ملنے بیٹی کے پاس جا رہی ہے، کہہ رہی تھی دو دن نہیں آؤں گی۔
*شوہر:* ٹھیک ہے، زیادہ کپڑے نہیں نکالوں گا۔
*بیوی:* اور ہاں !!! ماسی کو پانچ سو روپے دے دوں؟
*شوہر:* کیوں؟ ابھی عید آ ہی رہی ہے، تب دے دیں گے۔
*بیوی:* ارے نہیں بابا !! غریب ہے بیچاری، بیٹی اور نواسی کے پاس جا رہی ہے، تو اسے بھی اچھا لگے گا۔اور کچھ اپنی نواسی کے لئے بھی لے جائے گی۔ اس کی بیٹی اور نواسی بھی خوش ہوجائیں گی۔ویسے بھی اس مہنگائی کے دور میں اس کی تنخواہ سےکیا بنتا ہوگا۔ اپنوں کے پاس جا رہی ہے،کچھ ہاتھ میں ہوگا تو خوش رہے گی۔
*شوہر:* تم تو ضرورت سے زیادہ ہی جذباتی ہو جاتی ہو میرا خیال اس کی ضرورت نہیں۔
*بیوی:* آپ فکر مت کریں میں آپ سے ایکسٹرا پیسے نہیں مانگو گی۔ میں آج کا پیزا کھانے کا پروگرام منسوخ کر دیتی ہوں۔خواہ مخواہ 500 روپے اڑ جائیں گے، اس موٹی روٹی پیزا کے آٹھ ٹکڑوں کے بدلے اس کی مدد مجھے بہتر لگتی ہے۔
*شوہر:* واہ، واہ بیگم صاحبہ آپ کے کیا کہنے !! ہمارے منہ سے پیزا چھین کر ماسی کی پلیٹ میں؟ چلو آپ کی محبت میں یہ بھی برداشت کئے لیتے ہیں۔

تین دن بعد

*شوہر:* (پونچھا لگاتی كام والی ماسی سے پوچھا) اماں کیسی رہی چھٹی؟
*ماسی:* صاحب بہت اچھی رہیں۔ مالکن جی نے پانچ سو روپے دیئے تھے بڑے کام آئے۔ اللہ سلامت رکھے اور اللہ آپ کو بہت زیادہ عطا کرے۔
*شوہر:* اماں 500 روپے کا کیا کیا لیا؟

*ماسی:* نواسی کے لئے 150روپے کی فراک لی اور 40روپے کی گڑیا، بیٹی کے لئے 50روپے کے پیڑے لے گئی تھی، 50 روپے کی جلیبیاں محلے میں بانٹ دیں' 60 روپے کرایہ لگ گیا تھا۔ 25 روپے کی چوڑیاں بیٹی کے لئے اور داماد کے لئے 50روپے کا بیلٹ لیا۔ باقی 75 روپے بچے تھے وہ بھی میں نے نواسی کو کاپی اور پنسل خریدنے کے لئے دے دئیے۔
جھاڑوپونچھا لگاتے ہوئےپوراحساب اس کی زبان پر رٹا ہوا تھا۔
*شوہر:* 500روپے میں اتنا کچھ ؟؟؟ وہ حیرت سے دل ہی دل میں غور کرنے لگا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے آٹھ ٹکڑوں والا پیزا گھومنے لگا، وہ ان آٹھ ٹکڑوں کا موازنہ ماسی کے خرچ سے کرنے لگا۔ پہلا ٹکڑا بچے کی ڈریس کا، دوسرا ٹکڑا پیڑےکا، تیسرا ٹکڑا محلے کے لوگو ں کا' چوتھا کرایہ کا، پانچواں گڑیا کا، چھٹا ٹکڑا چوڑيوں کا، ساتواں داماد کی بیلٹ کا اور آٹھوا ں ٹکڑا بچی کی کاپی پنسل کا۔

آج تک اس نے ہمیشہ پیزا کا اوپر والا حصہ ہی دیکھا تھا، کبھی پلٹ كر نہیں دیکھا تھا کہ پیزا پیچھے سے کیسا لگتاہے۔ لیکن آج كا م والی ماسی نے پیزے کا دوسراحصہ دکھا دیا تھا۔ پیزے کے آٹھ ٹکڑے اسے زندگی کا مطلب سمجھا گئے تھے۔زندگی کے لئے خرچ یا خرچ کے لئے زندگی کا جدید مفہوم ایک جھٹکے میں اسے سمجھ میں آگیا۔ ہم ان چھوٹی چھوٹی باتوں پرکبھی غور ہی نہیں کرتے ہمارے لئے پانچ سو یا ہزار کی کوئی اہمیت بھی نہیں ہوتی لیکن یہ ہزار پانچ سو غریبوں کے لئے بڑی رقم ہوتے ہیں۔ اس لئے کبھی کبھی اپنی نہ محسوس ہونے والی چھوٹی چھوٹی خوشیاں کسی کے نام کرکے دیکھو آپ کو کیسے بڑی خوشی ملتی ہے۔
اگر اور کچھ نہیں تو کم از کم *شئیر* کر دیکھیں آپ کی *روح* کو کتنی تسکین ہوگی ۔۔۔
 

imissu4ever

محفلین
ابّا کی گھڑی

مُجھے ابّا کی گھڑی سے بہت چِڑ تھی اُس کی ٹک ٹک میرے سر پر ہتھوڑوں کی طرح لگتی۔ صبح الارم کی آواز سے تو جیسے سارے شہر میں زلزلہ آجاتا۔ جب تک میں اُٹھ نہ جاتا الارم بجتا ہی رہتا۔ اُس کے بند ہونے کے بعد ابا اُس وقت تک آوازیں دیتے رہتے جب تک میں وضو کر کے نہ آجاتا۔”او پُتر چھیتی آجا نماز کو دیر ہو رہی ہے۔"

الصلاة خير من النوم
گلی سے چاچے کُبےّ کی آواز آتی۔

ابا کی چال میں اور پُھرتی آ جاتی۔مسجد سے واپسی تک نیند ویسے ہی اُڑ جایا کرتی۔ اب اُٹھ گیا ہے تو دو رکوع بھی پڑھ لے۔اتنے میں اماں کے پر اٹھوں کی خوشبو صحن میں بھر جاتی اور میں نیند کا غم بھول جاتا۔ اگلے دن پھر وہی ِٹک ٹِک اور الارم۔ میں نے کئی بار خیالوں میں ابا کی گھڑی نُکڑ والے کباڑیئے کو بیچی۔ رات کو آنکھ کُھلنے پر میں نے ابا کو اکثر جاگتے روتے اور دعائیں کرتے پایا۔ جب اُٹھ ہی جاتے ہیں تو پھر الارم کیوں لگاتے ہیں؟ میں اماں سے لڑتا۔” تُو نماز کہ لیئے اُٹھتا جو نہیں تنگ کرتا ہے نا اسی لیئے“۔ وقت گزرتا رہا آہستہ آہستہ گھڑی کی ٹک ٹک الارم اور نماز میری زندگی کا حصہ بنتے چلے گئے۔ اب میں اکثر الارم بجنے سے پہلے اُٹھ جایا کرتا۔

اُس روز بھی الارم بجنے سے پہلے ہی میری آنکھ کُھل گئی۔ ابا شاید نہیں اُٹھے تھے مسجد سے واپسی پر میں ابا کے کمرے میں گیا۔ ٹک ٹک کی آواز آ رہی تھی اور ساتھ ہی اماں کی سسکیوں کی بھی ابا چُپکے سے چلے گئے تھے۔ میں پُھوٹ پُھوٹ کر روتا رہا ابا اب کبھی تنگ نہیں کروں گا۔ آپ کی پہلی آواز پر اُٹھ جایا کروں گا بس آپ ایک دفعہ واپس آجائیں۔ ابّا اکثر بابا فرید کا کلام گنگنایا کرتے

"پیلو پَکّیاں وے پکیاں نی وے آ چُنْوُں رَل یار
یار گیا تے وَل نہ آیا پتہ نہ دسیا خط نہ پایا
آ میرا دلدار تانگاں رکھیاں وے تانگاں رکھیاں نی وے آساں رکھیاں وے"

کوئی آس تھی نہ اُمید۔ اللہ کے پاس جانے والے واپس نہیں آیا کرتے میں یہ بات سمجھ گیا تھا۔ ابا کے جانے کہ بعد مسجد کے ُمصلّے سے میری پکّی یاری ہوگئی۔ اور وہیں اللہ سے باتیں بھی ہونے لگیں۔ الارم والی گھڑی جو اماں نے کب کی سٹور میں سنبھال دی تھی ہر روز صبح کے وقت ایک لمحے کے لیئے ضرور دماغ میں بجتی ابا کی آواز آتی۔ " چھیتی کر لے پُتر" اور میں نم آنکھوں کے ساتھ اکیلا ہی مسجد چلا جاتا۔ میرے ساتھ پیلو چُننے والا چلا گیا تھا۔ وقت گزرتا رہا۔ ایک دن امّاں بھی چلی گئیں۔ زمانے کی بھیڑ میں ایک اور ہاتھ چھوٹا۔ میں اکیلا ہو گیا تھا۔ بہت دنوں تک روتا رہا۔ آخربے قرار دِل کو قرار آ گیا۔ میں بہت چھوٹی عمر میں جان گیا تھا کہ سب ساتھ عارضی ہیں۔ بس ایک اللہ ہی ہے جو ہمیشہ بندے کے ساتھ رہتا ہے۔ وہ میری دعائیں سُنتا وہ میرا سب سے پیارا دوست تھا وہ مُجھ سےکبھی ناراض نہیں ہوتا تھا۔ اگر کبھی کُٹّی ہوئی تو میری طرف سے ہوئی۔ پھر میں رو کر اُسے منا لیتا وہ میرے آنسو پونچھ لیا کرتا۔

"اندرو اندری یار اوّلا کلم کَلّا مار پتھلا
توں دِلاں دِیاں یار لٹنا ایں ہٹیاں وے ہٹیاں نی وے“ (طاہر عدیم صاحب)

میں لُٹ گیا تھا جی جان سے لُٹ گیا تھا۔ اور ابّا بھی تو یہی چاہتے تھے نا۔ پھر میری شادی ہو گئی میں ایک بیٹے کا باپ بن گیا۔ دس سال گزر گئے روزانہ صفیہ میری بیوی بخت آور کو فجر کی نماز کے لیئے جگانے کی کوشش کرتی مگر ناکام رہتی۔ بہت پکّی نیند تھی میرے بیٹے کی۔ مُجھ سے بھی زیادہ پکّی۔ تھک ہار کر میں اکیلا ہی نماز کے لیئے چلا جاتا۔ اُس دِن میں نے رو رو کر بخت آوَر کے لیئے اللہ سے اُس کی محبت مانگی۔ اب میں جان گیا تھا ابّا اللہ سے کیا مانگا کرتے تھے۔ اگلے روز مسجد میں ایک عجیب واقعہ ہوا اچانک دیکھتا ہوں اگلی صف میں بائیں طرف ابا نماز پڑھ رہے تھے۔ شاید میرا وہم تھا میں نے غور سے دیکھا۔ میں اپنے ابا کو کیسے بھول سکتا ہوں بلاشبہ وہ ابا ہی تھے۔ اُن کے چہرے پر بلا کا سکون تھا۔ سلام پھیرنے کے بعد ایک دم میری طرف مُڑے اور کہنے لگے۔ بخت آور کہاں ہے؟ اُسے کیوں نہیں لائے؟ میں نے کہا ابّا اُس کے لیئے دعا کریں۔ میں اور بھی بہت کُچھ کہنا چاہتا تھا۔ میں ابّا کو بتانا چاہتا تھا آپ اور امّاں بہت یاد آتے ہیں۔ میں ایک بار اُن کے سینے سے لگ کر بتانا چاہتا تھا کہ اُن کے جانے کہ بعد میں کتنا اکیلا ہو گیا تھا۔ میں انہیں بتانا چاہتا پیلو پک گئے ابّا۔ مگر بس ایک لمحہ ہی تو تھا اور پھر ابا غائب ہو گئے۔ ابا کے عطر کی خوشبو میرے بہت پاس پھیلی تھی۔خواب تھا یا حقیقت میں سمجھ ہی نہیں پایا۔ شاید ایک لمحے کو میری آنکھ لگ گئی تھی۔

گھر جاتے ہی میں نے سٹور سے ابا کی گھڑی نکالی۔کتنی دیر میں متاعِ حیات کی طرح گھڑی کو سینے سے لگاکر روتا رہا۔اس کی ٹک ٹک میں ابا کی دعائیں بسی تھیں۔ اگلی صبح الارم بجا مگر آج یہ آواز دنیا کی سب سے خوبصورت آواز لگ رہی تھی۔ بخت آور الارم کی آواز سے تنگ آ کر اُٹھ گیا تھا۔میرے دل کی عجیب سی کیفیت تھی آنکھیں پرانے منظروں میں جی رہی تھیں۔ کمرے میں ابّا کے عطر کی خُوشبو پھیلی تھی اور صحن میں امّاں کے پر اٹھوں کی۔ او پُتر چھیتی آجا نماز کو دیر ہو رہی ہے۔ میں نے الارم بند کر کے آواز لگاتے ہوئے کہا۔ باہر سے چاچے کُبےّ کی آواز آ رہی تھی۔ الصلاة خير من النوم۔

" کچے گھڑے تے آئی آں تر کے سر مو ڈھے مہینوال دے دھر کے
کوئی جگائے نہ یار اکھیاں لگیاں وے لگیاں نی وے “ (طاہر عدیم صاحب)
” آچُنوں رَل یار پیلو پَکّیاں وے پَکّیاں نی وے “

پیلو چُننے کا موسم آگیا تھا۔
 

نسیم زہرہ

محفلین
Must read pls

*بیوی:* آج دھونے کے لئے زیادہ کپڑے مت نکالنا۔
*شوہر:* کیوں؟
*بیوی:* کام والی ماسی دو دن نہیں آئے گی
*شوہر:* کیوں؟
*بیوی:* اپنی نواسی سے ملنے بیٹی کے پاس جا رہی ہے، کہہ رہی تھی دو دن نہیں آؤں گی۔
*شوہر:* ٹھیک ہے، زیادہ کپڑے نہیں نکالوں گا۔
*بیوی:* اور ہاں !!! ماسی کو پانچ سو روپے دے دوں؟
*شوہر:* کیوں؟ ابھی عید آ ہی رہی ہے، تب دے دیں گے۔
*بیوی:* ارے نہیں بابا !! غریب ہے بیچاری، بیٹی اور نواسی کے پاس جا رہی ہے، تو اسے بھی اچھا لگے گا۔اور کچھ اپنی نواسی کے لئے بھی لے جائے گی۔ اس کی بیٹی اور نواسی بھی خوش ہوجائیں گی۔ویسے بھی اس مہنگائی کے دور میں اس کی تنخواہ سےکیا بنتا ہوگا۔ اپنوں کے پاس جا رہی ہے،کچھ ہاتھ میں ہوگا تو خوش رہے گی۔
*شوہر:* تم تو ضرورت سے زیادہ ہی جذباتی ہو جاتی ہو میرا خیال اس کی ضرورت نہیں۔
*بیوی:* آپ فکر مت کریں میں آپ سے ایکسٹرا پیسے نہیں مانگو گی۔ میں آج کا پیزا کھانے کا پروگرام منسوخ کر دیتی ہوں۔خواہ مخواہ 500 روپے اڑ جائیں گے، اس موٹی روٹی پیزا کے آٹھ ٹکڑوں کے بدلے اس کی مدد مجھے بہتر لگتی ہے۔
*شوہر:* واہ، واہ بیگم صاحبہ آپ کے کیا کہنے !! ہمارے منہ سے پیزا چھین کر ماسی کی پلیٹ میں؟ چلو آپ کی محبت میں یہ بھی برداشت کئے لیتے ہیں۔

تین دن بعد

*شوہر:* (پونچھا لگاتی كام والی ماسی سے پوچھا) اماں کیسی رہی چھٹی؟
*ماسی:* صاحب بہت اچھی رہیں۔ مالکن جی نے پانچ سو روپے دیئے تھے بڑے کام آئے۔ اللہ سلامت رکھے اور اللہ آپ کو بہت زیادہ عطا کرے۔
*شوہر:* اماں 500 روپے کا کیا کیا لیا؟

*ماسی:* نواسی کے لئے 150روپے کی فراک لی اور 40روپے کی گڑیا، بیٹی کے لئے 50روپے کے پیڑے لے گئی تھی، 50 روپے کی جلیبیاں محلے میں بانٹ دیں' 60 روپے کرایہ لگ گیا تھا۔ 25 روپے کی چوڑیاں بیٹی کے لئے اور داماد کے لئے 50روپے کا بیلٹ لیا۔ باقی 75 روپے بچے تھے وہ بھی میں نے نواسی کو کاپی اور پنسل خریدنے کے لئے دے دئیے۔
جھاڑوپونچھا لگاتے ہوئےپوراحساب اس کی زبان پر رٹا ہوا تھا۔
*شوہر:* 500روپے میں اتنا کچھ ؟؟؟ وہ حیرت سے دل ہی دل میں غور کرنے لگا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے آٹھ ٹکڑوں والا پیزا گھومنے لگا، وہ ان آٹھ ٹکڑوں کا موازنہ ماسی کے خرچ سے کرنے لگا۔ پہلا ٹکڑا بچے کی ڈریس کا، دوسرا ٹکڑا پیڑےکا، تیسرا ٹکڑا محلے کے لوگو ں کا' چوتھا کرایہ کا، پانچواں گڑیا کا، چھٹا ٹکڑا چوڑيوں کا، ساتواں داماد کی بیلٹ کا اور آٹھوا ں ٹکڑا بچی کی کاپی پنسل کا۔

آج تک اس نے ہمیشہ پیزا کا اوپر والا حصہ ہی دیکھا تھا، کبھی پلٹ كر نہیں دیکھا تھا کہ پیزا پیچھے سے کیسا لگتاہے۔ لیکن آج كا م والی ماسی نے پیزے کا دوسراحصہ دکھا دیا تھا۔ پیزے کے آٹھ ٹکڑے اسے زندگی کا مطلب سمجھا گئے تھے۔زندگی کے لئے خرچ یا خرچ کے لئے زندگی کا جدید مفہوم ایک جھٹکے میں اسے سمجھ میں آگیا۔ ہم ان چھوٹی چھوٹی باتوں پرکبھی غور ہی نہیں کرتے ہمارے لئے پانچ سو یا ہزار کی کوئی اہمیت بھی نہیں ہوتی لیکن یہ ہزار پانچ سو غریبوں کے لئے بڑی رقم ہوتے ہیں۔ اس لئے کبھی کبھی اپنی نہ محسوس ہونے والی چھوٹی چھوٹی خوشیاں کسی کے نام کرکے دیکھو آپ کو کیسے بڑی خوشی ملتی ہے۔
اگر اور کچھ نہیں تو کم از کم *شئیر* کر دیکھیں آپ کی *روح* کو کتنی تسکین ہوگی ۔۔۔


سبحان اللہ و جزاک اللہُ خیراً کثیرا
 

سیما علی

لائبریرین
Must read pls

*بیوی:* آج دھونے کے لئے زیادہ کپڑے مت نکالنا۔
*شوہر:* کیوں؟
*بیوی:* کام والی ماسی دو دن نہیں آئے گی
*شوہر:* کیوں؟
*بیوی:* اپنی نواسی سے ملنے بیٹی کے پاس جا رہی ہے، کہہ رہی تھی دو دن نہیں آؤں گی۔
*شوہر:* ٹھیک ہے، زیادہ کپڑے نہیں نکالوں گا۔
*بیوی:* اور ہاں !!! ماسی کو پانچ سو روپے دے دوں؟
*شوہر:* کیوں؟ ابھی عید آ ہی رہی ہے، تب دے دیں گے۔
*بیوی:* ارے نہیں بابا !! غریب ہے بیچاری، بیٹی اور نواسی کے پاس جا رہی ہے، تو اسے بھی اچھا لگے گا۔اور کچھ اپنی نواسی کے لئے بھی لے جائے گی۔ اس کی بیٹی اور نواسی بھی خوش ہوجائیں گی۔ویسے بھی اس مہنگائی کے دور میں اس کی تنخواہ سےکیا بنتا ہوگا۔ اپنوں کے پاس جا رہی ہے،کچھ ہاتھ میں ہوگا تو خوش رہے گی۔
*شوہر:* تم تو ضرورت سے زیادہ ہی جذباتی ہو جاتی ہو میرا خیال اس کی ضرورت نہیں۔
*بیوی:* آپ فکر مت کریں میں آپ سے ایکسٹرا پیسے نہیں مانگو گی۔ میں آج کا پیزا کھانے کا پروگرام منسوخ کر دیتی ہوں۔خواہ مخواہ 500 روپے اڑ جائیں گے، اس موٹی روٹی پیزا کے آٹھ ٹکڑوں کے بدلے اس کی مدد مجھے بہتر لگتی ہے۔
*شوہر:* واہ، واہ بیگم صاحبہ آپ کے کیا کہنے !! ہمارے منہ سے پیزا چھین کر ماسی کی پلیٹ میں؟ چلو آپ کی محبت میں یہ بھی برداشت کئے لیتے ہیں۔

تین دن بعد

*شوہر:* (پونچھا لگاتی كام والی ماسی سے پوچھا) اماں کیسی رہی چھٹی؟
*ماسی:* صاحب بہت اچھی رہیں۔ مالکن جی نے پانچ سو روپے دیئے تھے بڑے کام آئے۔ اللہ سلامت رکھے اور اللہ آپ کو بہت زیادہ عطا کرے۔
*شوہر:* اماں 500 روپے کا کیا کیا لیا؟

*ماسی:* نواسی کے لئے 150روپے کی فراک لی اور 40روپے کی گڑیا، بیٹی کے لئے 50روپے کے پیڑے لے گئی تھی، 50 روپے کی جلیبیاں محلے میں بانٹ دیں' 60 روپے کرایہ لگ گیا تھا۔ 25 روپے کی چوڑیاں بیٹی کے لئے اور داماد کے لئے 50روپے کا بیلٹ لیا۔ باقی 75 روپے بچے تھے وہ بھی میں نے نواسی کو کاپی اور پنسل خریدنے کے لئے دے دئیے۔
جھاڑوپونچھا لگاتے ہوئےپوراحساب اس کی زبان پر رٹا ہوا تھا۔
*شوہر:* 500روپے میں اتنا کچھ ؟؟؟ وہ حیرت سے دل ہی دل میں غور کرنے لگا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے آٹھ ٹکڑوں والا پیزا گھومنے لگا، وہ ان آٹھ ٹکڑوں کا موازنہ ماسی کے خرچ سے کرنے لگا۔ پہلا ٹکڑا بچے کی ڈریس کا، دوسرا ٹکڑا پیڑےکا، تیسرا ٹکڑا محلے کے لوگو ں کا' چوتھا کرایہ کا، پانچواں گڑیا کا، چھٹا ٹکڑا چوڑيوں کا، ساتواں داماد کی بیلٹ کا اور آٹھوا ں ٹکڑا بچی کی کاپی پنسل کا۔

آج تک اس نے ہمیشہ پیزا کا اوپر والا حصہ ہی دیکھا تھا، کبھی پلٹ كر نہیں دیکھا تھا کہ پیزا پیچھے سے کیسا لگتاہے۔ لیکن آج كا م والی ماسی نے پیزے کا دوسراحصہ دکھا دیا تھا۔ پیزے کے آٹھ ٹکڑے اسے زندگی کا مطلب سمجھا گئے تھے۔زندگی کے لئے خرچ یا خرچ کے لئے زندگی کا جدید مفہوم ایک جھٹکے میں اسے سمجھ میں آگیا۔ ہم ان چھوٹی چھوٹی باتوں پرکبھی غور ہی نہیں کرتے ہمارے لئے پانچ سو یا ہزار کی کوئی اہمیت بھی نہیں ہوتی لیکن یہ ہزار پانچ سو غریبوں کے لئے بڑی رقم ہوتے ہیں۔ اس لئے کبھی کبھی اپنی نہ محسوس ہونے والی چھوٹی چھوٹی خوشیاں کسی کے نام کرکے دیکھو آپ کو کیسے بڑی خوشی ملتی ہے۔
اگر اور کچھ نہیں تو کم از کم *شئیر* کر دیکھیں آپ کی *روح* کو کتنی تسکین ہوگی ۔۔۔
جزاک اللہ
 

سیما علی

لائبریرین
*ایک چمکتی ہوئی بات*

ایک شخص کو سزائے موت ہو گئی اس سے پوچھا گیا کہ زندگی کی آخری آرزو کیا ہے؟
اس نے کہا میں ہارون الرشید (بادشاہ وقت سے ملنا چاہتا ہوں)
آرزو پوری کر دی گئی قیدی جب دربار میں داخل ہوا تو اس نے بلند آواز میں کہا
“” السلام وعلیکم ””
بادشاہ تخت پر بیٹھا تھا اس نے کہا وعلیکم السلام
بادشاہ نے کہا کوئی بات
اس نے کہا کہ نہیں میرا کام ہو گیا
جلاد آئے اس قتل کرنے لگے
اس نے کہا اب آپ مجھے قتل نہیں کر سکتے
کہا کیوں...
کہا بادشاہ نے مجھے سلامتی کی ضمانت دے دی ہے
بادشاہ نے کہا میں نے کب دی ہے
قیدی نے کہا ابھی آپ نے وعلیکم السلام نہیں کہا
بادشاہ مسکرا پڑا اور کہا اسے آزاد کر دو
اور
جب ہم السلام علیکم کہتے ہیں
تو ہم ضمانت دے رہے ہوتے ہیں کہ تیرا مال، جان، عزت سب مجھ سے محفوظ ہے
ہم ایک دوسرے کو السلام و علیکم بھی کہیں
ہاتھ بھی ملائیں
گلے بھی ملیں
اور
ایک دوسرے کی جڑیں بھی کاٹیں
ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟
*⚘السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ⚘*
 

سیما علی

لائبریرین
!!...ماں دوائیوں سے کہاں ٹھیک ہوتی ہیں...!!

ﻣﻮﭨﺮ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ كا ﭘﻨﮑﭽﺮ ﻟﮕﻮﺍﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻣﯿﮟ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﺮ ﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮨﻔﺘﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﻭﺍﭘﺲ ﻧﮧ ﮨﯽ ﺟﺎﻭﮞ ﺗﻮ ﺑﮩﺘﺮ ﮨﮯ ،ﺩﯾﺮ ﺗﻮ ﻭﯾﺴﮯ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﭼﮑﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺟﮩﺎﮞ ﭘﭽﮭﻠﮯ ﺗﯿﻦ ﮨﻔﺘﮯ ﮔﺰﺭ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﮔﺰﺍﺭ ﮨﯽ ﻟﻮﮞ ﺗﻮ ﮔﺮﻣﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﭼﮭﭩﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﺑﺎﺭ ﭼﻼ ﺟﺎﺅﮞ ﮔﺎ۔ ﺍﺳﯽ ﺳﻮﭺ ﺑﭽﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﮈ ﭘﺮ ﮐﮭﮍﮮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﻨﺪﺭﮦ ﺳﻮﻟﮧ ‏ﺳﺎﻝ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﻧﻮﺟﻮﺍﮞ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﻃﺮﻑ ﻣﺘﻮﺟﮧ ﭘﺎﯾﺎ۔ ﻭﮦ ﻋﺠﯿﺐ ﺳﻮﺍﻟﯿﮧ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺟﺎﻧﺐ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ، ﺟﯿﺴﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮦ ﺭﮨﺎ ﮨﻮ ﻟﯿﮑﻦ ﺭﺵ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﭘﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔

ﺟﺐ ﭘﻨﮑﭽﺮ ﻟﮓ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﮐﺎﻧﺪﺍﺭ ﮐﻮ 1000 ﺭﻭﭘﮯ ﮐﺎ ﻧﻮﭦ ﺩﯾﺎ ﺍﺱ ﻧﮯ 100
ﺭﻭﭘﮯ ﮐﺎﭦ ﮐﺮ ﺑﺎﻗﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﻭﺍﭘﺲ ﮐﺮ ﺩﯾﮯ۔ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﭨﺮ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﭘﺮ ﺳﻮﺍﺭ ﮨﻮﮐﺮ ﺟﻮﻧﮩﯽ
ﻭﺍﭘﺲ ﺷﮩﺮ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻣﮍﻧﮯ ﻟﮕﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﻟﮍﮐﺎ ﺟﻠﺪﯼ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺁ ﮐﺮ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ :

" ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺟﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﻣﺰﺩﻭﺭﯼ ﮐﺮﻧﮯ ﺁﯾﺎ ﺗﮭﺎ، ﺁﺝ ﺩﯾﮩﺎﮌﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮕﯽ ﺁﭖ ﻣﺠﮭﮯ ﻭﺍﭘﺴﯽ ﮐﺎ ﮐﺮﺍﯾﮧ 100 ﺭﻭﭘﮯ ﺩﮮ ﺩﯾﮟﮔﮯ" ؟؟

ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺍﭼﭩﺘﯽ ﺳﯽ ﻧﮕﺎﮦ ﺍﺱ ﭘﺮ ﮈﺍﻟﯽ، ﺳﺎﺩﮦ ﺳﺎ ﻟﺒﺎﺱ، ﻣﺎﺗﮭﮯ ﭘﺮ ﺗﯿﻞ ﺳﮯ ﭼﭙﮑﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﺎﻝ، ﭘﺎﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﯿﻤﻨﭧ ﺑﮭﺮﺍ ﺟﻮﺗﺎ، ﻣﺠﮭﮯ ﻭﮦ ﺳﭽﺎ ﻟﮕﺎ، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ 100 ﺭﻭﭘﮯ ﻧﮑﺎﻝ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮨﺎتھ ﭘﺮ ﺭﮐھ ﺩﺋﯿﮯ ،ﻭﮦ ﺷﮑﺮﯾﮧ ﺍﺩﺍ ﮐﺮ ﮐﮯ ﭼﻠﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﺗﻮ ﻧﮧ ﺟﺎﻧﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺩﻝ ﮐﯿﺎ ﺧﯿﺎﻝ ﺁﯾﺎ، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ، "ﺳﻨﻮ، ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺩﯾﮩﺎﮌﯼ ﮐﺘﻨﯽ ﻣﻠﺘﯽ ﮨﮯ؟"

ﺍﺱ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﻨﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﯽ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﺎﻗﯽ ﮐﮯ 800 ﺭﻭﭘﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ
ﺑﮍﮬﺎ ﺩﯾﮯ۔ ﻭﮦ ﮨﭽﮑﭽﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﮨﭩﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ

" ﻧﮩﯿﮟ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺟﺎﻥ ! ﻣﯿﺮﺍ ﮔﮭﺮ ﻣﻨﮉﮬﺎﻟﯽ ﺷﺮﯾﻒ ﮨﮯ، ﻣﯿﮟ دو تین گھنٹے میں ﭘﯿﺪﻝ ﺑﮭﯽ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﺗﮭﺎ، ﻟﯿﮑﻦ ﮐﻞ ﺳﮯ ﻣﺎﮞ ﺟﯽ ﮐﯽ ﻃﺒﯿﻌﺖ ﭨﮭﯿﮏ ﻧﮩﯿﮟ، ﺍﻭﭘﺮ ﺳﮯ ﺩﯾﮩﺎﮌﯼ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ
ﻟﮕﯽ، ﺳﻮﭼﺎ ﺁﺝ ﺟﻠﺪﯼ ﺟﺎ ﮐﺮ ﻣﺎﮞ ﺟﯽ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﮐﺮ ﻟﻮﮞ ﮔﺎ".

ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ:
" ﭼﮭﺎ ﯾﮧ ﭘﯿﺴﮯ ﻟﮯ ﻟﻮ ﻣﺎﮞ ﺟﯽ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺩﻭﺍﺋﯽ ﻟﮯ ﺟﺎﻧﺎ"

ﻭﮦ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ :
" ﺩﻭﺍﺋﯽ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﮐﻞ ﮨﯽ ﻟﮯ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺁﺝ ﻣﯿﮟ ﺳﺎﺭﺍ ﺩﻥ ﻣﺎﮞ ﺟﯽ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺭﮨﻮﮞ ﮔﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺧﻮﺩ ﮨﯽ ﭨﮭﯿﮏ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﯽ، ﻣﺎﺋﯿﮟ ﺩﻭﺍﺋﯽ ﺳﮯ ﮐﮩﺎﮞ ﭨﮭﯿﮏ ہوﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺑﺎﺑﻮﺟﯽ"۔۔

ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮨﻮ ﮐﺮ ﭘﻮﭼﮭﺎ " ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﻧﺎﻡ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ؟"

ﺍﺗﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﺲ ﺑﮭﯽ ﺁ ﮔﺌﯽ، ﻭﮦ ﺑﺲ ﮐﯽ ﭼﮭﺖ ﭘﺮ ﻟﭙﮏ ﮐﺮ ﭼﮍﮪ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﯼ ﻃﺮﻑ ﻣﺴﮑﺮﺍﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺯﻭﺭ ﺳﮯ ﺑﻮﻻ

"ﮔﻠﻮ " ۔

ﮔﻠﻮ ﮐﯽ ﺑﺲ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺩﻭﺭ ﮨﻮﺗﯽ ﺟﺎ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﮔﻠﻮ ﮐﮯ ﻭﺍﭘﺲ ﮐﯿﮯ ﮨﻮﺋﮯ 800 ﺭﻭﭘﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﮨﺘﮭﯿﻠﯽ ﭘﺮ ﭘﮍﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﮨﺎﺋﯽ ﺳﭩﺮﯾﭧ ﮐﮯ ﺭﺵ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺩ کو یکدﻡ ﺑﮩﺖ ﺍﮐﯿﻼ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﺎ۔ ﮐﭽﮫ ﺳﻮﭺ ﮐﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻣﻮﭨﺮﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﮐﺎ ﺭﺥ ﺭﯾﻠﻮﮮ ﺍﺳﭩﯿﺸﻦ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻣﻮﮌ ﻟﯿﺎ۔ ﻣﻮﭨﺮ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﮐﻮ ﺍﺳﭩﯿﻨﮉ ﭘﺮ ﮐﮭﮍﺍ ﮐﺮ ﮐﮯ ﭨﻮﮐﻦ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﭨﮑﭧ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ 700 ﺭﻭﭘﮯ ﻣﯿﮟ ﺧﺎﻧﯿﻮﺍﻝ ﮐﺎ ﭨﮑﭧ ﻟﮯ ﮐﺮ ﮔﺎﮌﯼ ﮐﮯ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﻨﭻ ﭘﺮ ﺑﯿﭩھ ﮔﯿﺎ۔ ﮐﺐ ﮔﺎﮌﯼ ﺁﺋﯽ، ﮐﯿﺴﮯ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﺍﺭ ﮨﻮﺍ ﮐﭽﮫ ﺧﺒﺮ ﻧﮩﯿﮟ، ﺧﺎﻧﯿﻮﺍﻝ ﺍﺳﭩﯿﺸﻦ ﭘﺮ ﺍﺗﺮ ﮐﮯ ﭘﮭﺎﭨﮏ ﺳﮯ ﮐﺒﯿﺮﻭﺍﻻ ﮐﯽ ﻭﯾﻦ ﭘﺮ ﺳﻮﺍﺭ ﮨﻮﺍ، ﺁﺧﺮﯼ ﺑﭽﮯ ﮨﻮﺋﮯ 100 ﺭﻭﭘﮯ ﮐﺮﺍﯾﮧ ﺩﮮ ﮐﺮ ﺟﺐ ﺷﺎﻡ ﮈﮬﻠﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﺳﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺻﺤﻦ ﻣﯿﮟ ﭼﺎﺭﭘﺎﺋﯽ ﭘﺮ ﺍﻣﯽ ﺟﺎﻥ ﺳﺮ ﭘﺮ ﮐﭙﮍﺍ ﺑﺎﻧﺪﮬﮯ ﻧﯿﻢ ﺩﺍﺭﺯ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﻣﯿﺮﺍ ﺑﮍﺍ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺩﻭﺍﺋﯽ ﮐﺎ ﭼﻤﭻ ﺑﮭﺮ ﮐﺮ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﭘﻼ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔

ﻣﺠﮭﮯ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﯽ ﺍﻣﯽ ﺟﺎﻥ ﺍﭨھ ﮐﺮ ﮐﮭﮍﯼ ﮨﻮﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﻧﭽﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﯿﮟ ‏ﻣﯿﺮﺍ ﭘﺘﺮ ﺧﯿﺮ ﺳﮯ ﮔﮭﺮ ﺁ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ! ﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﭨﮭﯿﮏ ﮨﻮﮞ " ۔

میں آﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺁﻧﺴﻮ ﺑﮭﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺩﻭﮌ ﮐﺮ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﯿﻨﮯ ﺳﮯ ﺟﺎ ﻟﮕﺎ۔ ﺑﺲ ﮐﮯ ﮔﯿﭧ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﮍﮮ "ﮔﻠُﻮ" ﮐﺎ ﻣﺴﮑﺮﺍﺗﺎ ﮨﻮﺍ ﭼﮩﺮﮦ ﯾﮏ ﺩﻡ ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺁ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺳﻤﺠﮫ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ 800 ﺭﻭﭘﮯ ﻭﺍﭘﺲ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﯿﮯ ﺗﮭﮯ۔

والدین کی جان اپنے بچوں میں ہوتی اس بات کا خیال رکھا کریں۔ والدین کا کوئی نعم البدل نہیں، اگر آپ انہیں کچھ نہیں دے سکتے تو خیر ھے لیکن انہیں اپنی زندگی میں سے وہ قیمتی وقت ضرور دیں جن سے انہیں احساس ہو گے وہ آپ کے لئے انتہائی اہم ہیں۔
ماں باپ کو آپکے پیسوں کی نہیں آپکی بھیجی دواؤں کی نہیں آپ کی ضرورت ہوتی ہے_
 
Top