موجو
لائبریرین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ایک نیا دھاگہ شروع کررہا ہوں کہ جس میں ہم وہ دعائیں مانگیں گے اور شئیر کریں گے جن میں اللہ رب العز ت سے کسی چیز کی پناہ مانگی گئی ہو
دین میں تعوذ یا استعاذہ کا مطلب ہے کہ ہر شریر کے شر سے بچنے کے لئے اللہ کی پناہ میں آیا جائے۔
تعوذ پڑھنا تطہیروتزکیہ کا عمل ہے، اپنی بے کسی کااعتراف ہے اور اپنے خالق ومالک کی لازوال قوتوں پر غیر متزلزل اعتمادکااعلان ہے ۔
انسان کو ہرقسم کی برائیوں سے اُبھارنے والا شیطان اور اس کا جرگہ ہے۔ اس عدومبین کی شرارتوں سے پناہ مانگنے کا حکم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی دیا گیا تھا:
خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ - وَإِمَّا يَنزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّهِ إِنَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
اے نبیﷺ! نرمی اور درگزر کا طریقہ اختیار کرو۔ معروف کی تلقین کیے جاؤ اور جاہلوں سے نہ اُلجھو۔ اگر کبھی شیطان تمھیں اُکسائے تو اللہ کی پناہ مانگو وہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔ (الاعراف :۱۹۹۔۲۰۰)
حق کی وصیت، نیکی کی تلقین اور برائی سے اجتناب کی نصیحت ایسی چیزیں نہیں ہیں جو ہمیشہ ٹھنڈے پیٹوں قبول کرلی جائیں بلکہ اس راہ میں داعیانِ حق پر زیادتیاں بھی کی جاتی ہیں اور جاہلوں کی اشتعال انگیزیوں سے بچنے کی تدبیر صرف یہ ہے کہ داعیِ حق اس سے اللہ کی پناہ مانگے جس کی قدرت شیطان پر بھی حاوی ہے۔ سورۂ حم السجدہ میں بھی انھی الفاظ کے ساتھ آپﷺ کو شیطان سے اللہ کی پناہ مانگنے کا حکم دیا گیا ہے اور سورۂ مومنون میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ شیطان سے کس طرح اللہ کی پناہ مانگی جائے:
ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ السَّيِّئَةَ نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَصِفُونَ o وَقُل رَّبِّ أَعُوذُ بِكَ مِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ o وَأَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَن يَحْضُرُونِ o
برائی کو اس طریقے سے دفع کرو جو بہترین ہو۔ جو کچھ باتیں وہ تم پر بناتے ہیں وہ ہمیں خوب معلوم ہیں اور دعا کرو کہ پروردگار میں شیاطین کی اُکساہٹوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں، بلکہ اے رب! میں تو اس سے بھی تیری پناہ مانگتا ہوں کہ وہ میرے پاس آئیں۔ (المومنون : ۹۶ تا ۹۸)
شیطان کی اُکساہٹوں سے پناہ مانگنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اس لیے کہ اس کا علاج صرف اللہ کے دستِ قدرت میں ہے۔ ان آیتوں کے علاوہ قرآن کی سب سے آخری سورہ شیاطین جن و انس کی وسوسہ اندازیوں سے استعاذہ کے لیے ہی نازل کی گئی ہے۔ اس میں پناہ مانگنے کا حکم بھی دیا گیا ہے اور اس کے الفاظ بھی سکھائے گئے ہیں۔ سورۃ الناس سے پہلے سورۃ الفلق میں ہر شر اور ہربرائی سے اللہ کی پناہ مانگنے کی دعا سکھائی گئی ہے۔ اسی لیے ان دونوں سورتوں کا نام ’المعوذتین‘ ہے۔ ان دومستقل سورتوں کو نازل کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ استعاذہ اور تعوذ، یعنی اللہ کی پناہ مانگنے کی دعاؤں کو دین میں کیا مقام حاصل ہے اور اس کی کیا اہمیت ہے۔ غصے اور غضب کو دُور کرنے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے
اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
پڑھنے کی تعلیم دی ہے اور قرآن کی تلاوت شروع کرنے سے پہلے بھی پڑھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
اللہ کے پناہ مانگے والی دعاؤں یعنی تعوذات میں اللہ تعالیٰ کے حضور اس عاجزی و بے کسی کا اظہار بھی ہے جو بندگی کا جوہر ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات پر وہ اعتماد و توکل بھی جھلکتا ہے جو بندۂ مومن کو دنیا کے ہر خوف سے آزاد کر دیتا ہے۔
یہ تعوذات معبود اور عبد کے رشتے کو زندہ بھی کرتے ہیں اور اسے ثبات و استحکام بھی دیتے ہیں۔
یہ ایمان وتقویٰ ، اخلاص و للّٰہیت اور سوزوگداز کے حصول اور ان میں مسلسل بڑھوتری کا سرچشمہ بھی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی قربت ، رضا اور خوشنودی کا ذریعہ بھی۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت پر کاربند ہر بندہ مومن کے لیے یقین اور شعور کے ساتھ ان پر مداومت نہ صرف دفع مصائب و آلام ، رفع خطرات و مشکلات اور ازالۂ حزن و ملال کے لیے کارگر ہوگی بلکہ سکونِ قلب، تہذیبِ نفس اور تطہیرِ فکرو عمل کے لیے بھی نسخۂ کیمیا ثابت ہوگی۔
ایک نیا دھاگہ شروع کررہا ہوں کہ جس میں ہم وہ دعائیں مانگیں گے اور شئیر کریں گے جن میں اللہ رب العز ت سے کسی چیز کی پناہ مانگی گئی ہو
وَإِمَّا يَنزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّهِ إِنَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
اور اگر تمہیں کوئی وسوسہ شیطانی لاحق ہونے لگے تو اللہ کی پناہ مانگو بے شک وہ خوب سننے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے (الاعراف: 200)دین میں تعوذ یا استعاذہ کا مطلب ہے کہ ہر شریر کے شر سے بچنے کے لئے اللہ کی پناہ میں آیا جائے۔
تعوذ پڑھنا تطہیروتزکیہ کا عمل ہے، اپنی بے کسی کااعتراف ہے اور اپنے خالق ومالک کی لازوال قوتوں پر غیر متزلزل اعتمادکااعلان ہے ۔
انسان کو ہرقسم کی برائیوں سے اُبھارنے والا شیطان اور اس کا جرگہ ہے۔ اس عدومبین کی شرارتوں سے پناہ مانگنے کا حکم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی دیا گیا تھا:
خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ - وَإِمَّا يَنزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّهِ إِنَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
اے نبیﷺ! نرمی اور درگزر کا طریقہ اختیار کرو۔ معروف کی تلقین کیے جاؤ اور جاہلوں سے نہ اُلجھو۔ اگر کبھی شیطان تمھیں اُکسائے تو اللہ کی پناہ مانگو وہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔ (الاعراف :۱۹۹۔۲۰۰)
حق کی وصیت، نیکی کی تلقین اور برائی سے اجتناب کی نصیحت ایسی چیزیں نہیں ہیں جو ہمیشہ ٹھنڈے پیٹوں قبول کرلی جائیں بلکہ اس راہ میں داعیانِ حق پر زیادتیاں بھی کی جاتی ہیں اور جاہلوں کی اشتعال انگیزیوں سے بچنے کی تدبیر صرف یہ ہے کہ داعیِ حق اس سے اللہ کی پناہ مانگے جس کی قدرت شیطان پر بھی حاوی ہے۔ سورۂ حم السجدہ میں بھی انھی الفاظ کے ساتھ آپﷺ کو شیطان سے اللہ کی پناہ مانگنے کا حکم دیا گیا ہے اور سورۂ مومنون میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ شیطان سے کس طرح اللہ کی پناہ مانگی جائے:
ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ السَّيِّئَةَ نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَصِفُونَ o وَقُل رَّبِّ أَعُوذُ بِكَ مِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ o وَأَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَن يَحْضُرُونِ o
برائی کو اس طریقے سے دفع کرو جو بہترین ہو۔ جو کچھ باتیں وہ تم پر بناتے ہیں وہ ہمیں خوب معلوم ہیں اور دعا کرو کہ پروردگار میں شیاطین کی اُکساہٹوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں، بلکہ اے رب! میں تو اس سے بھی تیری پناہ مانگتا ہوں کہ وہ میرے پاس آئیں۔ (المومنون : ۹۶ تا ۹۸)
شیطان کی اُکساہٹوں سے پناہ مانگنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اس لیے کہ اس کا علاج صرف اللہ کے دستِ قدرت میں ہے۔ ان آیتوں کے علاوہ قرآن کی سب سے آخری سورہ شیاطین جن و انس کی وسوسہ اندازیوں سے استعاذہ کے لیے ہی نازل کی گئی ہے۔ اس میں پناہ مانگنے کا حکم بھی دیا گیا ہے اور اس کے الفاظ بھی سکھائے گئے ہیں۔ سورۃ الناس سے پہلے سورۃ الفلق میں ہر شر اور ہربرائی سے اللہ کی پناہ مانگنے کی دعا سکھائی گئی ہے۔ اسی لیے ان دونوں سورتوں کا نام ’المعوذتین‘ ہے۔ ان دومستقل سورتوں کو نازل کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ استعاذہ اور تعوذ، یعنی اللہ کی پناہ مانگنے کی دعاؤں کو دین میں کیا مقام حاصل ہے اور اس کی کیا اہمیت ہے۔ غصے اور غضب کو دُور کرنے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے
اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
پڑھنے کی تعلیم دی ہے اور قرآن کی تلاوت شروع کرنے سے پہلے بھی پڑھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
اللہ کے پناہ مانگے والی دعاؤں یعنی تعوذات میں اللہ تعالیٰ کے حضور اس عاجزی و بے کسی کا اظہار بھی ہے جو بندگی کا جوہر ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات پر وہ اعتماد و توکل بھی جھلکتا ہے جو بندۂ مومن کو دنیا کے ہر خوف سے آزاد کر دیتا ہے۔
یہ تعوذات معبود اور عبد کے رشتے کو زندہ بھی کرتے ہیں اور اسے ثبات و استحکام بھی دیتے ہیں۔
یہ ایمان وتقویٰ ، اخلاص و للّٰہیت اور سوزوگداز کے حصول اور ان میں مسلسل بڑھوتری کا سرچشمہ بھی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی قربت ، رضا اور خوشنودی کا ذریعہ بھی۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت پر کاربند ہر بندہ مومن کے لیے یقین اور شعور کے ساتھ ان پر مداومت نہ صرف دفع مصائب و آلام ، رفع خطرات و مشکلات اور ازالۂ حزن و ملال کے لیے کارگر ہوگی بلکہ سکونِ قلب، تہذیبِ نفس اور تطہیرِ فکرو عمل کے لیے بھی نسخۂ کیمیا ثابت ہوگی۔
- سب سے پہلے ہماری کوشش ہوگی کہ قرآن حکیم سے تعوذ کی دعائیں پیش کی جائیں
- پھر صحیح احادیث سے
- اس کے بعد ایسی دعائیں جو ضعیف احادیث سے لیکن ساتھ میں اگر وضاحت کردی جائے تو بہت بہتر ہوگا کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔
- ایسی دعائیں آخری ترجیح کے طور پر شامل کی جائیں جن کے مفہوم میں اللہ کی حمدوثناء عاجزی و تضرع کا اظہار ہو اگرچہ نبی ﷺ سے الفاظ منقول نہ بھی ہوں۔
- اس میں بھی ترجیح صحابہ رضوان اللہ اور تابعین و تبع تابعین ہی سے منقول کو اولیت حاصل ہونی چاہیے۔