ناصر علی مرزا
معطل
کچھ دیر فرض کیجیے!
آئیے کچھ دیر کے لیے فرض کر لیں کہ پاکستان کی ہر گلی میں لائبریری قائم ہے۔ لوگوں میں مطالعے کا شوق اتنا بڑھ گیا ہے کہ کرایہ دے کر بھی لائبریری سے کتابیں لینے پر تیار ہیں۔ بچے، بڑے، بوڑھے اور گھر کی عورتیں بھی اس شوق میں مبتلا ہیں۔ چنانچہ ہر محلے میں بُک سٹال کھُل گئے ہیں بلکہ جنرل سٹور، بیکری اور کولڈ ڈرنک کی دکانوں پر بھی کچھ نہ کچھ کتابیں ضرور رکھی جاتی ہیں کیونکہ سب سے زیادہ بِکنے والی چیز ہی کتاب ہے۔ یہ شوق صرف اُن لوگوں تک محدود نہیں، جو پڑھ سکتے ہیں۔،جو پڑھنا نہیں جانتے ،وہ بھی کتابیں خریدتے ہیں۔ کسی پڑھے لکھے کے پاس لے جاتے ہیں اور فرمایش کرتے ہیں کہ وہ پڑھ کر سنا دے۔ چنانچہ آپ کسی رکشے میں بیٹھیں تو رکشہ والے کی گدی کے پیچھے اوزاروں کے علاوہ کوئی کتاب ضرور ہو گی۔ بس میں جائیے تو ڈرائیور نے ڈیش بورڈ میں ایک آدھ کتاب رکھ چھوڑی ہو گی۔ ورکشاپوں میں گریس لگی ہوئی کتابیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ جہاں جسے موقع ملتا ہے وہ شروع ہو جاتا ہے۔ پڑھنے والے اتنے ہیں تو لکھنے والے کیوں کم ہوں۔ شاید ہر گلی میں دو تین ایسے لوگ مل جائیں گے جو کتاب لکھے بیٹھے ہیں۔ پبلشر کی تلاش میں ہیں۔ چھوٹے چھوٹے شہروں میں بھی پبلشرز نمودار ہو گئے ہیں، بڑے شہروں کا تو پوچھنا ہی کیا۔ کتاب ایک منفعت بخش کاروبار بن گئی ہے ،لیکن اس پر چند بڑے ناموں کی اجارہ داری نہیں ۔ کوئی بھی شخص کتاب لکھ کر، چھاپ کر، بیچ کر یا کرایہ پر دے کر اپنے اور گھر والوں کے لیے روزگار فراہم کر سکتا ہے۔ کیا آپ ایسا پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں؟ کیا آپ کے خیال میں ایسا پاکستان ممکن ہے؟ ہو سکتا ہے کہ آپ پہلے سوال کا جواب اثبات میں اور دوسرے کا نفی میں دیں۔ (اکثر لوگوں نے مجھ سے یہی کہا ہے کہ وہ ایسا پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں ،مگر اُن کے خیال میں یہ ممکن نہیں) لیکن میں نے جو نقشہ کھینچا گیا وہ ہمارا مستقبل نہیں بلکہ ماضی ہے۔ پاکستان بننے کے دس گیارہ برس بعد ہی یہ ماحول قائم ہو گیا تھا اور تقریباً 1981ء تک رہا۔ جو لوگ اس وقت موجود تھے اُنہیں یاد ہو گا (اور یہ اُن کی مہربانی ہے کہ اِس کی یادیں بھی نئی نسل تک منتقل نہیں کی ہیں)۔ بدنصیبی ہے کہ جس قوم کا آغاز اس شان کے ساتھ ہوا ،آج اس کی یہ حالت ہے کہ کتابیں چھپنے، پڑھنے، بیچنے اور خریدنے کا کام تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ کتابوں کی دکانیں صرف چند بازاروں تک محدود ہیں۔ پڑھنے والے اب بھی کتابوں پر بڑی رقومات صرف کرتے ہیں ،لیکن یہ شوق صرف چند لوگوں تک رہ گیا ہے۔ والدین، اساتذہ اور دردمند لوگ عموماً یہی رونا روتے دکھائی دیتے ہیں کہ معاشرے میں کتب بینی کی عادت ختم ہو گئی ہے۔ ایک وقت تھا کہ سکولوں میں کسی بھی وقت بستوں کی تلاشی لے لی جاتی تھی، جس طالب علم کے بستے سے درسی کتاب کے علاوہ کوئی کتاب نکلتی اُسے سزا ملتی۔ کتاب عموماً ضبط کر کے سکول کی لائبریری میں داخل کر دی جاتی تھی، مگر کبھی کبھی اساتذہ بچوں کو عبرت دلانے کے لیے کتاب پھاڑ کر پْرزے پْرزے بھی کر دیتے تھے (یہ منظر میں نے اپنے سکول کے زمانے میں خود کئی بار دیکھا)۔ چنانچہ بچے کئی دفعہ کتابیں قمیص کے نیچے یا جرابوں میں اُڑس کر چُھپا لیتے۔ سکول میں بدمعاش طالب علم کا تصور یہی تھا کہ اس کے پاس سے کتابیں برآمد ہوں گی۔ یہ حقیقت جھٹلائی نہیں جا سکتی کہ ہمارے سکولوں نے مسلسل تیس برس تک یہی روش اپنائے رکھی۔ کالجوں، یونیورسٹیوں، اکیڈمیوں اور ادبی انجمنوں کی رائے میں بھی پوری قوم جو کتابیں پڑھ رہی تھی وہ غلط کر رہی تھی۔ ہمارے پروفیسروں، دانشوروں اور نقادوں کے نزدیک ادب اور ثقافت کے پیمانے کچھ اور تھے (جن کا تذکرہ کرنے کی شاید یہاں کوئی ضرورت نہیں)۔ انہی کی سوچ سے وہ جذباتی رویے فروغ پا رہے تھے جن کے تحت اسکولوں اور گھروں میں کتابیں پڑھنا جرم قرار دیا گیا تھا۔ چنانچہ یہ سمجھنا کچھ مشکل نہیں ہے کہ وہ ماحول کیوں ختم ہو گیا۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اسے واپس لانا بیحد ضروری ہے ورنہ ہم آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔ اس کے لیے سب سے پہلے ہمیں ایمانداری کے ساتھ یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ کون صحیح تھا: قوم یا دانشور؟ قوم کے منتخب کیے ہوئے ادب کے سب سے بڑے نمایندہ اسرار احمد ناوری تھے۔ جنہیں عموماً قلمی نام ابن صفی سے پہچانا جاتا ہے۔ انھی نے چند دوستوں کے ساتھ اِس تہذیبی انقلاب کا آغاز کیا تھا۔ تعلیمی اداروں اور دانشوروں کی طرف سے کتابوں کے خلاف جو طوفان اُٹھایا گیا، یہ اُس کے خلاف چٹان کی طرح ڈٹے رہے۔ جب تک وہ زندہ رہے، پاکستان میں کتابیں پڑھنے کا رجحان کم نہ ہوا۔ اسی دوران ریڈیو نے مقبولیت حاصل کی، فلموں کا سنہرا دَور شروع ہوا، ٹیلی وژن آیا اور بلیک اینڈ وہائٹ سے رنگین ہو گیا۔ لوگوں نے اِن تمام دلچسپیوں میں حصہ لیا مگر کتابوں سے منہ نہ موڑا۔ 1980ء میں ابن صفی فوت ہوئے۔ چند ہی برس بعد وہ لائبریریاں اور بُک سٹال اچانک غائب ہوگئے جو گلی گلی کُھلے ہوئے تھے۔
(ابن ِصفی کی تحریروں کے انتخاب اور تجزیے پر مشتمل کتاب رانا پیلس کے پیش لفظ سے اقتباس)
آئیے کچھ دیر کے لیے فرض کر لیں کہ پاکستان کی ہر گلی میں لائبریری قائم ہے۔ لوگوں میں مطالعے کا شوق اتنا بڑھ گیا ہے کہ کرایہ دے کر بھی لائبریری سے کتابیں لینے پر تیار ہیں۔ بچے، بڑے، بوڑھے اور گھر کی عورتیں بھی اس شوق میں مبتلا ہیں۔ چنانچہ ہر محلے میں بُک سٹال کھُل گئے ہیں بلکہ جنرل سٹور، بیکری اور کولڈ ڈرنک کی دکانوں پر بھی کچھ نہ کچھ کتابیں ضرور رکھی جاتی ہیں کیونکہ سب سے زیادہ بِکنے والی چیز ہی کتاب ہے۔ یہ شوق صرف اُن لوگوں تک محدود نہیں، جو پڑھ سکتے ہیں۔،جو پڑھنا نہیں جانتے ،وہ بھی کتابیں خریدتے ہیں۔ کسی پڑھے لکھے کے پاس لے جاتے ہیں اور فرمایش کرتے ہیں کہ وہ پڑھ کر سنا دے۔ چنانچہ آپ کسی رکشے میں بیٹھیں تو رکشہ والے کی گدی کے پیچھے اوزاروں کے علاوہ کوئی کتاب ضرور ہو گی۔ بس میں جائیے تو ڈرائیور نے ڈیش بورڈ میں ایک آدھ کتاب رکھ چھوڑی ہو گی۔ ورکشاپوں میں گریس لگی ہوئی کتابیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ جہاں جسے موقع ملتا ہے وہ شروع ہو جاتا ہے۔ پڑھنے والے اتنے ہیں تو لکھنے والے کیوں کم ہوں۔ شاید ہر گلی میں دو تین ایسے لوگ مل جائیں گے جو کتاب لکھے بیٹھے ہیں۔ پبلشر کی تلاش میں ہیں۔ چھوٹے چھوٹے شہروں میں بھی پبلشرز نمودار ہو گئے ہیں، بڑے شہروں کا تو پوچھنا ہی کیا۔ کتاب ایک منفعت بخش کاروبار بن گئی ہے ،لیکن اس پر چند بڑے ناموں کی اجارہ داری نہیں ۔ کوئی بھی شخص کتاب لکھ کر، چھاپ کر، بیچ کر یا کرایہ پر دے کر اپنے اور گھر والوں کے لیے روزگار فراہم کر سکتا ہے۔ کیا آپ ایسا پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں؟ کیا آپ کے خیال میں ایسا پاکستان ممکن ہے؟ ہو سکتا ہے کہ آپ پہلے سوال کا جواب اثبات میں اور دوسرے کا نفی میں دیں۔ (اکثر لوگوں نے مجھ سے یہی کہا ہے کہ وہ ایسا پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں ،مگر اُن کے خیال میں یہ ممکن نہیں) لیکن میں نے جو نقشہ کھینچا گیا وہ ہمارا مستقبل نہیں بلکہ ماضی ہے۔ پاکستان بننے کے دس گیارہ برس بعد ہی یہ ماحول قائم ہو گیا تھا اور تقریباً 1981ء تک رہا۔ جو لوگ اس وقت موجود تھے اُنہیں یاد ہو گا (اور یہ اُن کی مہربانی ہے کہ اِس کی یادیں بھی نئی نسل تک منتقل نہیں کی ہیں)۔ بدنصیبی ہے کہ جس قوم کا آغاز اس شان کے ساتھ ہوا ،آج اس کی یہ حالت ہے کہ کتابیں چھپنے، پڑھنے، بیچنے اور خریدنے کا کام تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ کتابوں کی دکانیں صرف چند بازاروں تک محدود ہیں۔ پڑھنے والے اب بھی کتابوں پر بڑی رقومات صرف کرتے ہیں ،لیکن یہ شوق صرف چند لوگوں تک رہ گیا ہے۔ والدین، اساتذہ اور دردمند لوگ عموماً یہی رونا روتے دکھائی دیتے ہیں کہ معاشرے میں کتب بینی کی عادت ختم ہو گئی ہے۔ ایک وقت تھا کہ سکولوں میں کسی بھی وقت بستوں کی تلاشی لے لی جاتی تھی، جس طالب علم کے بستے سے درسی کتاب کے علاوہ کوئی کتاب نکلتی اُسے سزا ملتی۔ کتاب عموماً ضبط کر کے سکول کی لائبریری میں داخل کر دی جاتی تھی، مگر کبھی کبھی اساتذہ بچوں کو عبرت دلانے کے لیے کتاب پھاڑ کر پْرزے پْرزے بھی کر دیتے تھے (یہ منظر میں نے اپنے سکول کے زمانے میں خود کئی بار دیکھا)۔ چنانچہ بچے کئی دفعہ کتابیں قمیص کے نیچے یا جرابوں میں اُڑس کر چُھپا لیتے۔ سکول میں بدمعاش طالب علم کا تصور یہی تھا کہ اس کے پاس سے کتابیں برآمد ہوں گی۔ یہ حقیقت جھٹلائی نہیں جا سکتی کہ ہمارے سکولوں نے مسلسل تیس برس تک یہی روش اپنائے رکھی۔ کالجوں، یونیورسٹیوں، اکیڈمیوں اور ادبی انجمنوں کی رائے میں بھی پوری قوم جو کتابیں پڑھ رہی تھی وہ غلط کر رہی تھی۔ ہمارے پروفیسروں، دانشوروں اور نقادوں کے نزدیک ادب اور ثقافت کے پیمانے کچھ اور تھے (جن کا تذکرہ کرنے کی شاید یہاں کوئی ضرورت نہیں)۔ انہی کی سوچ سے وہ جذباتی رویے فروغ پا رہے تھے جن کے تحت اسکولوں اور گھروں میں کتابیں پڑھنا جرم قرار دیا گیا تھا۔ چنانچہ یہ سمجھنا کچھ مشکل نہیں ہے کہ وہ ماحول کیوں ختم ہو گیا۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اسے واپس لانا بیحد ضروری ہے ورنہ ہم آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔ اس کے لیے سب سے پہلے ہمیں ایمانداری کے ساتھ یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ کون صحیح تھا: قوم یا دانشور؟ قوم کے منتخب کیے ہوئے ادب کے سب سے بڑے نمایندہ اسرار احمد ناوری تھے۔ جنہیں عموماً قلمی نام ابن صفی سے پہچانا جاتا ہے۔ انھی نے چند دوستوں کے ساتھ اِس تہذیبی انقلاب کا آغاز کیا تھا۔ تعلیمی اداروں اور دانشوروں کی طرف سے کتابوں کے خلاف جو طوفان اُٹھایا گیا، یہ اُس کے خلاف چٹان کی طرح ڈٹے رہے۔ جب تک وہ زندہ رہے، پاکستان میں کتابیں پڑھنے کا رجحان کم نہ ہوا۔ اسی دوران ریڈیو نے مقبولیت حاصل کی، فلموں کا سنہرا دَور شروع ہوا، ٹیلی وژن آیا اور بلیک اینڈ وہائٹ سے رنگین ہو گیا۔ لوگوں نے اِن تمام دلچسپیوں میں حصہ لیا مگر کتابوں سے منہ نہ موڑا۔ 1980ء میں ابن صفی فوت ہوئے۔ چند ہی برس بعد وہ لائبریریاں اور بُک سٹال اچانک غائب ہوگئے جو گلی گلی کُھلے ہوئے تھے۔
(ابن ِصفی کی تحریروں کے انتخاب اور تجزیے پر مشتمل کتاب رانا پیلس کے پیش لفظ سے اقتباس)