فاتح
لائبریرین
آج تمھیں اک بات بتاؤں
ایک کہانی یا کوئی قصہ
جو بھی کہہ لو
میرے لیے تو نوحہ ہے یہ
ماتمی نوحہ
آخری نوحہ
تمھیں پتا ہے؟
اس قصے کی الٹی مثلث مجھ پہ کھڑی ہے
تمھیں پتا ہے؟
برسوں سے خاموش سا بیٹھا
کن سوچوں کی
قبر میں دھنستا جاتا ہوں میں؟
سوچ رہا ہوں۔۔۔
کیسی لگتی ہو گی تم
کیسی لگتی ہو گی دنیا
اس دنیا کے رنگ اور نور کی بارش میں تم
بھیگتی کیسی لگتی ہو گی
ہنستی کیسی لگتی ہو گی
یاد ہے تم کو فیصلے کا وہ آخری لمحہ؟
وہ لمحہ جو
صدیوں سے میں جھیل رہا ہوں
تنہا تنہا
۔۔۔فیصلے کا وہ لمحہ جس میں
تم نے میری آنکھیں لے کر
اور کسی کو تحفہ دی تھیں
یاد ہے تم کو؟
تمھیں پتا ہے؟
بہت دنوں تک
میں تو یہ بھی جان نہ پایا
میری آنکھیں
جا بھی چکی ہیں
بینائی سے میرا رشتہ
ٹوٹ چکا ہے
ہوش میں آنے پر
جب میں نے
آنکھوں پر سے پٹی کھولی
چاروں اور اندھیرا تھا
بس تاریکی تھی
وحشت میں ہاتھوں سے ٹٹولا
آنکھ کی جا پر فقط گڑھے تھے
تمھیں پتا ہے؟
کسی کو میری آنکھوں کی ڈونیشن دے کر
اس کی دنیا روشن کر کے
کہنے کو
جنت میں تم نے ایک محل تعمیر کیا ہے
لیکن میری آنکھیں چھین کے
تم نے ایسا پاپ کیا ہے
جس میں دوزخ بھی جل جائیں
میرا حصہ گھور اندھیرے
تمھیں پتا ہے؟
ایسے اندھیرے
جن میں
تمھارے چہرے کا بھی دیپ نہیں ہے
جن میں
تمھارا سایا بھی معدوم ہوا ہے۔۔۔
مٹ ہی چلا ہے
تمھیں پتا ہے؟
تاریکی کی لحَد میں لیٹا
سوچتا ہوں میں
رنگ اور نور کی بارش اب بھی ہوتی ہو گی
اب بھی
بہاریں آتی ہوں گی
اب بھی
تمھارے ہونٹوں پر وہ
مسکانوں کی قوس قزح اور
آنکھوں میں وہ
دیپ تو ہوں گے
مجھ کو لیکن کیسے خبر ہو؟
میری تو آنکھیں ہی لے کر
تم نے کسی کو ہدیہ دی تھیں
نور مری ہی آنکھوں کا تو
تم نے کسی کو دان کیا تھا
جو اَب تم کو دیکھ رہا ہے
میری آنکھوں سے جو تم کو دیکھ رہا ہے
میرے سپنے
میرے منظر
اس کے ہیں اب
وہ
جو میری آنکھوں سے سب دیکھ رہا ہے
وہ جو تم کو دیکھ رہا ہے
(فاتح الدین بشیرؔ)
ایک کہانی یا کوئی قصہ
جو بھی کہہ لو
میرے لیے تو نوحہ ہے یہ
ماتمی نوحہ
آخری نوحہ
تمھیں پتا ہے؟
اس قصے کی الٹی مثلث مجھ پہ کھڑی ہے
تمھیں پتا ہے؟
برسوں سے خاموش سا بیٹھا
کن سوچوں کی
قبر میں دھنستا جاتا ہوں میں؟
سوچ رہا ہوں۔۔۔
کیسی لگتی ہو گی تم
کیسی لگتی ہو گی دنیا
اس دنیا کے رنگ اور نور کی بارش میں تم
بھیگتی کیسی لگتی ہو گی
ہنستی کیسی لگتی ہو گی
یاد ہے تم کو فیصلے کا وہ آخری لمحہ؟
وہ لمحہ جو
صدیوں سے میں جھیل رہا ہوں
تنہا تنہا
۔۔۔فیصلے کا وہ لمحہ جس میں
تم نے میری آنکھیں لے کر
اور کسی کو تحفہ دی تھیں
یاد ہے تم کو؟
تمھیں پتا ہے؟
بہت دنوں تک
میں تو یہ بھی جان نہ پایا
میری آنکھیں
جا بھی چکی ہیں
بینائی سے میرا رشتہ
ٹوٹ چکا ہے
ہوش میں آنے پر
جب میں نے
آنکھوں پر سے پٹی کھولی
چاروں اور اندھیرا تھا
بس تاریکی تھی
وحشت میں ہاتھوں سے ٹٹولا
آنکھ کی جا پر فقط گڑھے تھے
تمھیں پتا ہے؟
کسی کو میری آنکھوں کی ڈونیشن دے کر
اس کی دنیا روشن کر کے
کہنے کو
جنت میں تم نے ایک محل تعمیر کیا ہے
لیکن میری آنکھیں چھین کے
تم نے ایسا پاپ کیا ہے
جس میں دوزخ بھی جل جائیں
میرا حصہ گھور اندھیرے
تمھیں پتا ہے؟
ایسے اندھیرے
جن میں
تمھارے چہرے کا بھی دیپ نہیں ہے
جن میں
تمھارا سایا بھی معدوم ہوا ہے۔۔۔
مٹ ہی چلا ہے
تمھیں پتا ہے؟
تاریکی کی لحَد میں لیٹا
سوچتا ہوں میں
رنگ اور نور کی بارش اب بھی ہوتی ہو گی
اب بھی
بہاریں آتی ہوں گی
اب بھی
تمھارے ہونٹوں پر وہ
مسکانوں کی قوس قزح اور
آنکھوں میں وہ
دیپ تو ہوں گے
مجھ کو لیکن کیسے خبر ہو؟
میری تو آنکھیں ہی لے کر
تم نے کسی کو ہدیہ دی تھیں
نور مری ہی آنکھوں کا تو
تم نے کسی کو دان کیا تھا
جو اَب تم کو دیکھ رہا ہے
میری آنکھوں سے جو تم کو دیکھ رہا ہے
میرے سپنے
میرے منظر
اس کے ہیں اب
وہ
جو میری آنکھوں سے سب دیکھ رہا ہے
وہ جو تم کو دیکھ رہا ہے
(فاتح الدین بشیرؔ)