آصف شفیع
محفلین
"سنخور" کے اصرار پر ایک غزل پیش خدمت ہے۔ میری ایک غزل فورم پر زیرِ بحث رہی جس کا مطلع یوں تھا:
دیکھ مت دل کی طرف اتنی فراوانی سے
یہ کبھی دام میں آتا نہیں آسانی سے
درج بالا اور درج ذیل غزل ایک ہی رو میں لکھی گئی تھیں۔لہذا مجھے یہ غزل بھی پوسٹ کرنے کو کہا گیا ہے۔ جو حاضر ہے
غزل
آبدیدہ تھا جو میں بے سرو سامانی پر
محوِ حیرت ہوں محبت کی فراوانی پر
تجھ سے بیگانہءاحساسِ الم کیا جانیں
کیا گزرتی ہے شب و روز کے زندانی پر
موج در موج بہے جاتا ہوں تہ داری میں
آج کل درد کا دریا بھی ہے طغیانی پر
چشمِ نم سے کہاں ممکن ہے نظارا دل کا
نقش بنتا ہی نہیں بہتے ہوئے پانی پر
حسنِ جاں سوز کو جب شعر میں ڈھالا میں نے
لوگ حیران ہوئے میری سخن دانی پر
وہی اندازِ عملداری بھی سکھلائے گا
جس نے مامور کیا مجھ کو جہاں بانی پر
میرا ہر خواب تہِ خاک پڑا ہے آصف
نوحہ کس طرح لکھوں شہر کی ویرانی پر
دیکھ مت دل کی طرف اتنی فراوانی سے
یہ کبھی دام میں آتا نہیں آسانی سے
درج بالا اور درج ذیل غزل ایک ہی رو میں لکھی گئی تھیں۔لہذا مجھے یہ غزل بھی پوسٹ کرنے کو کہا گیا ہے۔ جو حاضر ہے
غزل
آبدیدہ تھا جو میں بے سرو سامانی پر
محوِ حیرت ہوں محبت کی فراوانی پر
تجھ سے بیگانہءاحساسِ الم کیا جانیں
کیا گزرتی ہے شب و روز کے زندانی پر
موج در موج بہے جاتا ہوں تہ داری میں
آج کل درد کا دریا بھی ہے طغیانی پر
چشمِ نم سے کہاں ممکن ہے نظارا دل کا
نقش بنتا ہی نہیں بہتے ہوئے پانی پر
حسنِ جاں سوز کو جب شعر میں ڈھالا میں نے
لوگ حیران ہوئے میری سخن دانی پر
وہی اندازِ عملداری بھی سکھلائے گا
جس نے مامور کیا مجھ کو جہاں بانی پر
میرا ہر خواب تہِ خاک پڑا ہے آصف
نوحہ کس طرح لکھوں شہر کی ویرانی پر