عاطف بٹ
محفلین
انتظار حسین نے روزنامہ 'مشرق' کے ادبی صفحے کے لئے کالم لکھنے کا آغاز کیا تو ریاض بٹالوی کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے انہوں نے ادیبوں سے ملاقاتیں شروع کردیں۔ انہی ملاقاتوں کو وہ صفحۂ قرطاس پر منتقل کر کے کالم کی شکل میں شائع کروا دیتے۔ 'اخباری ملاقاتوں' کے یہ سلسلہ ایک عرصہ جاری رہا۔ بعد ازاں ان ملاقاتوں پر مبنی کالم 1982ء میں کتابی صورت میں 'ملاقاتیں' کے نام سے شائع ہوئے۔
انہی ملاقاتوں کے سلسلے میں انتظار حسین جب احمد ندیم قاسمی سے ملے تو ان سے دیگر موضوعات کے علاوہ پاک بھارت تعلقات کے ذیل میں بھی بات چیت ہوئی۔ انتظار حسین نے سمجھوتہ ایکسپریس کے بارے میں پوچھا تو قاسمی صاحب نے کہا 'جنگ سے ہر ادیب کو نفرت ہے مگر امن آبرومندانہ ہونا چاہئے۔ ہندوستان پاکستان کے درمیان سیاسی اور ثقافتی روابط ضرور قائم ہونے چاہئیں لیکن ہمیں اپنی قومی شناخت اور پاکستانی ادب کی پہچان کا بھی تحفظ کرنا چاہئے۔ ہندوستان کے اہل قلم دوستوں کی طرف سے جو اظہارِ محبت ہوتا ہے، وہ سر آنکھوں پر مگر جب وہ ایک تہذیب کا نام لے کر سرحدوں کو بےمعنی قرار دیتے ہیں تو ہم اسے ایک چال سمجھتے ہیں۔ پاکستانی ادیبوں کو اس معاملہ میں محتاط رہنا چاہئے۔'
قاسمی صاحب ادیبوں کی اس قسم سے تعلق رکھتے ہیں جنہیں حقیقی معنوں میں دانشور کہا جاسکتا ہے۔ انٹرویو کے دوران پوچھے گئے مذکورہ سوال کے جواب میں انہوں نے 'آبرومندانہ امن' کی اصطلاح استعمال کر کے بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے ایک بہت بڑے عقدے کی گرہ کشائی کردی۔ ہم جس دنیا میں بس رہے ہیں وہاں کسی بھی ایک ملک یا خطے کا دیگر ممالک اور خطوں سے کٹ کر اور الگ ہو کر رہنا ممکن نہیں ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مختلف ممالک اور خطوں کے مابین قائم ہونے والے تعلقات کی حدود کا تعین کیسے کیا جائے کہ بہرطور ملکوں کے باہمی تعلقات صد فی صد انسانی رشتوں جیسے نہیں ہوتے اور یہی وجہ ہے کہ ان کے لئے ہر قدم قواعد و ضوابط کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اٹھانا پڑتا ہے۔
مختلف ملکوں اور خطوں کے درمیان تعلقات کئی دائروں میں بٹے ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں کہیں علاقائی و جغرافیائی صورتحال اپنا کردار ادا کرتی ہے تو کہیں نظریاتی وابستگی اہمیت اختیار کر جاتی ہے۔ کہیں مشترکہ مفادات وجہِ اتحاد بنتے ہیں تو کہیں معاشی معاملات اختلاط کی راہیں ہموار کرتے ہیں۔ ان سبھی صورتوں میں اگر کوئی ملک اپنا وقار اور سالمیت برقرار رکھنا چاہتا ہے تو اس کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات کو آبرومندانہ سطح پر قائم کیا جائے۔
پاکستان اور بھارت ہمسایہ ممالک ہیں۔ ان دونوں کے درمیان مطابقت کے بھی کئی رشتے پائے جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں، علاقائی امن و سلامتی کا دارومدار بھی بہت حد تک ان دونوں ہمسایوں کے باہمی تعلقات پر ہے۔ یہ رشتے اور علاقائی امن اس بات کے متقاضی ہیں کہ دونوں ممالک ایک دوسرے سے صحت مند تعلقات قائم کر کے آگے بڑھیں اور یوں ایک دوسرے کے لئے امن و استحکام اور ترقی و خوشحالی کا وسیلہ بنیں۔ صحت مند تعلقات کے قیام کے لئے بنیادی کلیہ اسی بات کو بنانا پڑے گا کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے وقار اور سالمیت کی قدر کرتے ہوئے باہمی معاملات میں افہام و تفہیم کے ساتھ ساتھ آبرومندانہ اتحاد کے اصولوں کو بھی اپنائیں۔ بصورتِ دیگر تعلقات تو شاید قائم ہوجائیں گے مگر ان کے مستحکم اور دیرپا ہونے کی ضمانت فراہم کرنا ممکن نہیں۔
انہی ملاقاتوں کے سلسلے میں انتظار حسین جب احمد ندیم قاسمی سے ملے تو ان سے دیگر موضوعات کے علاوہ پاک بھارت تعلقات کے ذیل میں بھی بات چیت ہوئی۔ انتظار حسین نے سمجھوتہ ایکسپریس کے بارے میں پوچھا تو قاسمی صاحب نے کہا 'جنگ سے ہر ادیب کو نفرت ہے مگر امن آبرومندانہ ہونا چاہئے۔ ہندوستان پاکستان کے درمیان سیاسی اور ثقافتی روابط ضرور قائم ہونے چاہئیں لیکن ہمیں اپنی قومی شناخت اور پاکستانی ادب کی پہچان کا بھی تحفظ کرنا چاہئے۔ ہندوستان کے اہل قلم دوستوں کی طرف سے جو اظہارِ محبت ہوتا ہے، وہ سر آنکھوں پر مگر جب وہ ایک تہذیب کا نام لے کر سرحدوں کو بےمعنی قرار دیتے ہیں تو ہم اسے ایک چال سمجھتے ہیں۔ پاکستانی ادیبوں کو اس معاملہ میں محتاط رہنا چاہئے۔'
قاسمی صاحب ادیبوں کی اس قسم سے تعلق رکھتے ہیں جنہیں حقیقی معنوں میں دانشور کہا جاسکتا ہے۔ انٹرویو کے دوران پوچھے گئے مذکورہ سوال کے جواب میں انہوں نے 'آبرومندانہ امن' کی اصطلاح استعمال کر کے بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے ایک بہت بڑے عقدے کی گرہ کشائی کردی۔ ہم جس دنیا میں بس رہے ہیں وہاں کسی بھی ایک ملک یا خطے کا دیگر ممالک اور خطوں سے کٹ کر اور الگ ہو کر رہنا ممکن نہیں ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مختلف ممالک اور خطوں کے مابین قائم ہونے والے تعلقات کی حدود کا تعین کیسے کیا جائے کہ بہرطور ملکوں کے باہمی تعلقات صد فی صد انسانی رشتوں جیسے نہیں ہوتے اور یہی وجہ ہے کہ ان کے لئے ہر قدم قواعد و ضوابط کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اٹھانا پڑتا ہے۔
مختلف ملکوں اور خطوں کے درمیان تعلقات کئی دائروں میں بٹے ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں کہیں علاقائی و جغرافیائی صورتحال اپنا کردار ادا کرتی ہے تو کہیں نظریاتی وابستگی اہمیت اختیار کر جاتی ہے۔ کہیں مشترکہ مفادات وجہِ اتحاد بنتے ہیں تو کہیں معاشی معاملات اختلاط کی راہیں ہموار کرتے ہیں۔ ان سبھی صورتوں میں اگر کوئی ملک اپنا وقار اور سالمیت برقرار رکھنا چاہتا ہے تو اس کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات کو آبرومندانہ سطح پر قائم کیا جائے۔
پاکستان اور بھارت ہمسایہ ممالک ہیں۔ ان دونوں کے درمیان مطابقت کے بھی کئی رشتے پائے جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں، علاقائی امن و سلامتی کا دارومدار بھی بہت حد تک ان دونوں ہمسایوں کے باہمی تعلقات پر ہے۔ یہ رشتے اور علاقائی امن اس بات کے متقاضی ہیں کہ دونوں ممالک ایک دوسرے سے صحت مند تعلقات قائم کر کے آگے بڑھیں اور یوں ایک دوسرے کے لئے امن و استحکام اور ترقی و خوشحالی کا وسیلہ بنیں۔ صحت مند تعلقات کے قیام کے لئے بنیادی کلیہ اسی بات کو بنانا پڑے گا کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے وقار اور سالمیت کی قدر کرتے ہوئے باہمی معاملات میں افہام و تفہیم کے ساتھ ساتھ آبرومندانہ اتحاد کے اصولوں کو بھی اپنائیں۔ بصورتِ دیگر تعلقات تو شاید قائم ہوجائیں گے مگر ان کے مستحکم اور دیرپا ہونے کی ضمانت فراہم کرنا ممکن نہیں۔