متلاشی
محفلین
آبِ حیات
کل میں یونہی بیٹھا سوچ وبچار میں مصروف تھا کہ مجھ پر ’’آب حیات‘‘ کی حقیقت منکشف ہو گئی۔ آپ نے بھی یقیناً آب حیات کے بارے میں بہت کچھ سنا ہو گا۔۔۔مگر کچھ لوگ تو اس کو افسانوی اختراع سمجھ کر اس کی حقیقت سے انکاری ہیں ۔ اور کچھ اس کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہیں ۔ویسے بھی اس کے بارے میں کئی قصے بر زباں زدِ خاص و عام ہیں۔ جیسا کہ حضرت خضر علیہ السلام کے بارے میں مشہور ہے کہ انہوں نے آبِ حیات پی رکھا ہے۔ اور یہ قصہ بھی معروف بہ اہل زباں ہے کہ خضر علیہ السلام اور سکندر دونوں مل کر آبِ حیات کی تلاش میں نکلے ۔ اور پھر آخر کار خضر علیہ السلام نے آب حیات کا کنواں ڈھونڈھ لیا۔ اور اس میں سے پانی پی لیا مگر سکندر کو اس کی خبر نہ دی۔۔۔ اسی لئے غالب کہتا ہے
کل ایسے ہی میرے ذہن میں ایک خیال اُبھرا کہ آب حیات کیا ہے؟ کیا اس کی کوئی حقیقت بھی ہے یا کہ یہ صرف ایک افسانوی اختراع ہے۔میں نے اس نقطہ پر مزید سوچ بچار کی تو مجھ پر یہ عقدہ کھلا کہ ’’آب حیات‘‘ کا مطلب ہے کہ وہ پانی یا جام جسے پی کر انسان ہمیشہ کے لئے زندہ رہ سکے ۔ تو ایسا پانی اور جام تو صرف ایک ہی ہے ۔ جسے پی کر انسان ہمیشہ کے لئے امر ہو جاتا ہے۔۔۔ اور وہ ہے ۔۔’’جامِ شہادت‘‘ جو شخص بھی یہ جام پیتا ہے وہ حیاتِ جاوداں کو پا لیتا ہے ۔۔ اور دنیا میں جتنی بھی چیزیں ہیں سب کو فنا ہے ۔ کوئی بھی چیز ہمیشہ کے لئے نہیں ۔ مگر یہ جام ، یعنی ’’جامِ شہادت‘‘ جو شخص پی لیتا ہے وہ فنا سے نکل کر بقا کی راہ کا راہی بن جاتا ہے ۔ اور ہمارا قرآن بھی اس پر شاہد ہے ۔ کہ اللہ کا ارشاد ہے ۔۔۔۔
‘‘اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل (شہید)کئے جائیں انہیں مردہ مت کہو ،بلکہ وہ زندہ ہیں مگر تمہیں اس کی خبر نہیں۔۔۔’’
اور یہ صرف مسلمانوں پر اللہ کا خاص فضل ہے کہ جس نے انہیں ’’آبِ حیات ‘‘ جیسی عظیم نعمت سے نوازا ہے ۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو یہ جام پینے کی توفیق نصیب فرمائے۔۔۔
کل میں یونہی بیٹھا سوچ وبچار میں مصروف تھا کہ مجھ پر ’’آب حیات‘‘ کی حقیقت منکشف ہو گئی۔ آپ نے بھی یقیناً آب حیات کے بارے میں بہت کچھ سنا ہو گا۔۔۔مگر کچھ لوگ تو اس کو افسانوی اختراع سمجھ کر اس کی حقیقت سے انکاری ہیں ۔ اور کچھ اس کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہیں ۔ویسے بھی اس کے بارے میں کئی قصے بر زباں زدِ خاص و عام ہیں۔ جیسا کہ حضرت خضر علیہ السلام کے بارے میں مشہور ہے کہ انہوں نے آبِ حیات پی رکھا ہے۔ اور یہ قصہ بھی معروف بہ اہل زباں ہے کہ خضر علیہ السلام اور سکندر دونوں مل کر آبِ حیات کی تلاش میں نکلے ۔ اور پھر آخر کار خضر علیہ السلام نے آب حیات کا کنواں ڈھونڈھ لیا۔ اور اس میں سے پانی پی لیا مگر سکندر کو اس کی خبر نہ دی۔۔۔ اسی لئے غالب کہتا ہے
کیا کیا خضر نے سکندر سے
اب کسے رہنما کرے کوئی
خیر یہ تو ٹھہرے قصے کہانیاں۔ اصل حقیقت تو کل ہی مجھ پر عیاں ہوئی۔اب کسے رہنما کرے کوئی
کل ایسے ہی میرے ذہن میں ایک خیال اُبھرا کہ آب حیات کیا ہے؟ کیا اس کی کوئی حقیقت بھی ہے یا کہ یہ صرف ایک افسانوی اختراع ہے۔میں نے اس نقطہ پر مزید سوچ بچار کی تو مجھ پر یہ عقدہ کھلا کہ ’’آب حیات‘‘ کا مطلب ہے کہ وہ پانی یا جام جسے پی کر انسان ہمیشہ کے لئے زندہ رہ سکے ۔ تو ایسا پانی اور جام تو صرف ایک ہی ہے ۔ جسے پی کر انسان ہمیشہ کے لئے امر ہو جاتا ہے۔۔۔ اور وہ ہے ۔۔’’جامِ شہادت‘‘ جو شخص بھی یہ جام پیتا ہے وہ حیاتِ جاوداں کو پا لیتا ہے ۔۔ اور دنیا میں جتنی بھی چیزیں ہیں سب کو فنا ہے ۔ کوئی بھی چیز ہمیشہ کے لئے نہیں ۔ مگر یہ جام ، یعنی ’’جامِ شہادت‘‘ جو شخص پی لیتا ہے وہ فنا سے نکل کر بقا کی راہ کا راہی بن جاتا ہے ۔ اور ہمارا قرآن بھی اس پر شاہد ہے ۔ کہ اللہ کا ارشاد ہے ۔۔۔۔
‘‘اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل (شہید)کئے جائیں انہیں مردہ مت کہو ،بلکہ وہ زندہ ہیں مگر تمہیں اس کی خبر نہیں۔۔۔’’
اور یہ صرف مسلمانوں پر اللہ کا خاص فضل ہے کہ جس نے انہیں ’’آبِ حیات ‘‘ جیسی عظیم نعمت سے نوازا ہے ۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو یہ جام پینے کی توفیق نصیب فرمائے۔۔۔