آتشِ ہجر میں کوئی جلتا رہا

رات کٹتی رہی دن ڈھلتا رہا
آتشِ ہجر میں کوئی جلتا رہا..
کانٹے یادوں کے دل میں چبھتے رہے
روتا رہا آنکھ ملتا رہا..

میں رہا منتظر تیرا ساری عمر
تیری کھوج میں بھٹکا نگرنگر..
تم آتے رہے جان جاتی رہی
کوئی سرطان سا دل میں پلتا رہا..

روشنی میری آنکھوں کی وہ لے گیا
بے نور دنیا مجھے دے گیا..
سامنے دھندلی آنکھوں کے منزل لٹی
میں تکتا رہا ہاتھ ملتا رہا..

نہ سہارا ملا نہ وہ پیارا ملا
نہ ہی منزل ملی نہ کنارہ ملا..
ٹھوکریں کھاتا رہا اور گرتا رہا
گر گر کے خود ہی سنبھلتا رہا..

انہیں عیش وعشرت کی چاہ تھی
سو ان کو ان کی منزل ملی,
ہم سفر میں رہے ہمسفر نہ ملا
مقدر میں چلنا تھا چلتا رہا..

از قلم محمد اطہر طاہر
ہارون آباد
 
Top