آتی ہے یاد مجھ کو ہر اک جو بات گزری----برائے اصلاح

الف عین
محمد خلیل الرحمٰن
محمّد احسن سمیع؛راحل؛
------------
مفعول فاعلاتن مفعول فاعلاتن
-------
آتی ہے یاد مجھ کو ہر اک جو بات گزری
جب سوچتا ہوں میری کیسے حیات گزری
-------------
وعدہ کیا تھا اس نے آئے گا آج ملنے
بس انتظار کرتے ساری یہ رات گزری
------------
میں خواب دیکھتا ہوں ،وہ بن گیا ہے میرا
دل پر مرے یہ اکثر ہے واردات گزری
--------------
دیوانگی نے میری مجھ کو بہت ستایا
رنج و الم سے تب ہی میری ہے ذات گزری
-----------
جینے کی ہے تمنّا مرنے کا خوف دل میں
اس کشمکش میں میری ساری حیات گزری
----------
اس نے بھلا دیا ہے دل سے تجھے یوں ارشد
جیسے کہ ذات تیری کوئی ہو بات گزری
-------------
 

الف عین

لائبریرین
آتی ہے یاد مجھ کو ہر اک جو بات گزری
جب سوچتا ہوں میری کیسے حیات گزری
------------- ہر اک جو بات.. رواں نہیں لگتا، الفاظ یا ترتیب بدلیں

وعدہ کیا تھا اس نے آئے گا آج ملنے
بس انتظار کرتے ساری یہ رات گزری
------------ بس انتظار میں ہی یہ ساری رات گزری
رواں نہیں؟

میں خواب دیکھتا ہوں ،وہ بن گیا ہے میرا
دل پر مرے یہ اکثر ہے واردات گزری
-------------- جہاں میں کہتا ہوں کہ روانی متاثر لگ رہی ہے تو اکثر الفاظ یا ترتیب بدل دینے سے بہتر ہو جاتی ہے۔ بھرتی کے یہ، وہ، ہی، بھی نکال کر دیکھا کریں، یعنی آپ خود بھی تھوڑا سا دھیان دے لین تو درست بندش کر سکتے ہیں، بس ذرا اس کے ساتھ وقت گزارنے کی ضرورت ہے
یہاں بھی
اکثر ہے میرے دل پر یہ واردات گزری
نہیں خیال آیا آپ کو!

دیوانگی نے میری مجھ کو بہت ستایا
رنج و الم سے تب ہی میری ہے ذات گزری
----------- ایضاً میری ہے ذات یا ہے میری ذات؟
تب ہی تو رنج و غم سے ہے میری ذات...

جینے کی ہے تمنّا مرنے کا خوف دل میں
اس کشمکش میں میری ساری حیات گزری
---------- دوسرے ٹکڑے میں بھی' کی ضرورت ہے
جینے کی آرزو ہے، مرنے کا ڈر بھی دل میں

اس نے بھلا دیا ہے دل سے تجھے یوں ارشد
جیسے کہ ذات تیری کوئی ہو بات گزری
... دوسرا مصرع مہمل ہے دوسرا کہین
 
الف عین
(دوبارا)
----------
بھولا نہیں ہوں کچھ بھی، کیسے حیات گزری
اب تک ہے یاد مجھ کو ہر ایک بات گزری
-------------
قابو رہا نہ دل پر ،آنسو نکل پڑے تھے
جب سامنے سے میرے اس کی برات گزری
------------
وعدہ کیا تھا اس نے آئے گا آج ملنے
اس انتظار میں ہی ساری یہ رات گزری
----------
میں خواب دیکھتا ہوں ،وہ ہو گیا ہے میرا
اکثر ہے میرے دل پر یہ واردات گزری
-----------
جینے کی آرزو ہے ، مرنے کا ڈر بھی دل میں
اس کشمکش میں میری ساری حیات گزری
-------
ارشد تری وفا کو اس نے بھلا دیا ہے
اس کے لئے ہے ایسے ، جیسے ہو بات گزری
------
نوٹ ۔برات ہندی میں شادی کے جلوس کے لئے مستعمل
 
Top