آج اردو زبان کے مشہور شاعر جون ایلیاء کی دسویں برسی ہے

نیلم

محفلین
آج اردو زبان کے مشہور شاعر جون ایلیاء کی دسویں برسی ہے۔
جون ایلیاء ١٤ دسمبر ١٩٣١ کو ہندوستان کے علاقے اتر پردیش (امروھا) میں پیدا ہو ے۔ بہن بھا ئیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ اں کے والد شفیق حسن ایلیاء کو ایک ادبی حیثیت حاصل تھی۔ادبی ماحول کا ایلیاء پر یہ اثر ھوا کے فقط آٹھ سال کی عمر میں انہوں ںے اشعار کہنا شروع کر دیے۔ بچپن سے اسلامی تاریخ میں کافی دلچسپی تھی۔ ١٩٥٧ میں پاکستان ھجرت کی اور کراچی میں رھائش پزیر ہوے۔ جلد ہی اپنے تیکھے اور انوکھے انداز بیاں کی وجہ سے ادبی حلقوں میں پزیرائ حاصل ہونے لگی۔ اردو ادب کے مشہور نقاد محمد علی صدیقی نے جون ایلیاء کا شمار بیسویں صدی کے دوسرے حصے کے تین عمدہ ترین غزل شعراء میں کیا ہے۔
جون ایلیاء کی زندگی کا المیہ یہ تھا کے وہ بہت تلاش کے باوجود اپنا آئیڈیل جیون ساتھی نہ تلاش سکے۔کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ٰ بیت سی شاعری اسی وجہ سے مایوسی اور تیکھے پن کی عکا س ہے۔
١٩٩١ میں اںکا پہلا مجموعہ “ تلاش“ شائع ہوا۔ ٰانکی وفات آٹھ نومبر ٢٠٠٢ کو ہوئ جسکے بعد انکے مجموعے “یعنی“ (٢٠٠٣) ، “گمان“ (٢٠٠٤)، “لیکن“ (٢٠٠٤) اور “گویا“ (٢٠٠٦) میں ٰانکے قریبی ساتھی خالد ٰ
انصاری کی کاوشوں سے مرتب ہوئے۔
 

عسکری

معطل
533286_334110413314733_1955384697_n.jpg
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
آج اردو زبان کے مشہور شاعر جون ایلیاء کی دسویں برسی ہے۔
جون ایلیاء ١٤ دسمبر ١٩٣١ کو ہندوستان کے علاقے اتر پردیش (امروھا) میں پیدا ہو ے۔ بہن بھا ئیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ اں کے والد شفیق حسن ایلیاء کو ایک ادبی حیثیت حاصل تھی۔ادبی ماحول کا ایلیاء پر یہ اثر ھوا کے فقط آٹھ سال کی عمر میں انہوں ںے اشعار کہنا شروع کر دیے۔ بچپن سے اسلامی تاریخ میں کافی دلچسپی تھی۔ ١٩٥٧ میں پاکستان ھجرت کی اور کراچی میں رھائش پزیر ہوے۔ جلد ہی اپنے تیکھے اور انوکھے انداز بیاں کی وجہ سے ادبی حلقوں میں پزیرائ حاصل ہونے لگی۔ اردو ادب کے مشہور نقاد محمد علی صدیقی نے جون ایلیاء کا شمار بیسویں صدی کے دوسرے حصے کے تین عمدہ ترین غزل شعراء میں کیا ہے۔
جون ایلیاء کی زندگی کا المیہ یہ تھا کے وہ بہت تلاش کے باوجود اپنا آئیڈیل جیون ساتھی نہ تلاش سکے۔کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ٰ بیت سی شاعری اسی وجہ سے مایوسی اور تیکھے پن کی عکا س ہے۔
١٩٩١ میں اںکا پہلا مجموعہ “ تلاش“ شائع ہوا۔ ٰانکی وفات آٹھ نومبر ٢٠٠٢ کو ہوئ جسکے بعد انکے مجموعے “یعنی“ (٢٠٠٣) ، “گمان“ (٢٠٠٤)، “لیکن“ (٢٠٠٤) اور “گویا“ (٢٠٠٦) میں ٰانکے قریبی ساتھی خالد ٰ
انصاری کی کاوشوں سے مرتب ہوئے۔

رئیس امروہوی کیا ان کے سب سے بڑے بھائی تھے؟
جون ایلیا اور زاہدہ حنا نے ایک دوسرے میں اپنا آئیڈیل پایا ہو گا تبھی شادی کا فیصلہ کیا ہو گا۔

اللہ تعالٰی ان کی مغفرت فرمائے، آمین
 

نیلم

محفلین
وہ معروف صحافی رئیس امروہوی اور فلسفی سید محمد تقی کے ‏بھائی، اور مشہور کالم نگار زاہدہ حنا کے سابق خاوند تھے
جی جون ایلیاسب سے چھوٹےبھائی تھے:)
رئیس امروہوی کیا ان کے سب سے بڑے بھائی تھے؟
جون ایلیا اور زاہدہ حنا نے ایک دوسرے میں اپنا آئیڈیل پایا ہو گا تبھی شادی کا فیصلہ کیا ہو گا۔

اللہ تعالٰی ان کی مغفرت فرمائے، آمین
اُن کی ڈایئورس ہوگئی تھی
 

نیلم

محفلین
جون ایک ادبی رسالے انشاء سے بطور مدیر وابستہ رہے جہاں ان کی ‏ملاقات اردو کی ایک اور انتھک مصنفہ زاہدہ حنا سے ہوئی جن سے ‏بعد میں انہوں نے شادی کر لی۔ زاہدہ حنا ایک اپنے انداز کی ترقی ‏پسند دانشور ہیں اور اب بھی دو روزناموں، جنگ اور ایکسپریس، ‏میں حالات حاضرہ اور معاشرتی موضوعات پر لکھتی ہیں۔ جون کے ‏زاہدہ سے 2 بیٹیاں اور ایک بیٹا پیدا ہوا۔ 1980ء کی دہائی کے وسط ‏میں ان کی طلاق ہو گئی۔ اس کے بعد تنہائی کے باعث جون کی ‏حالت ابتر ہو گئی۔ وہ بژمردہ ہو گئے اور شراب نوشی شروع کر ‏دی۔
 

نیلم

محفلین
جون ایلیا 14 دسمبر، 1937ء کو امروہہ، اتر پردیش کے ایک ‏نامور خاندان میں پیدا ہوئے۔ وہ اپنے بہن بھائیوں میں سب ‏سے چھوٹے تھے۔ ان کے والد، علامہ شفیق حسن ایلیا کو فن ‏اور ادب سے گہرا لگاؤ تھا اس کے علاوہ وہ نجومی اور شاعر ‏بھی تھے۔ اس علمی ماحول نے جون کی طبیعت کی تشکیل ‏بھی انہی خطوط پر کی۔ انہوں نے اپنا پہلا اردو شعر محض 8 ‏سال کی عمر میں لکھا۔ اپنی کتاب شاید کے پیش لفظ میں ‏قلم طراز ہیں:‏
‏"میری عمر کا آٹھواں سال میری زندگی کا سب سے زیادہ اہم ‏اور ماجرا پرور سال تھا۔ اس سال میری زندگی کے دو سب ‏سے اہم حادثے، پیش آئے۔ پہلا حادثہ یہ تھا کہ میں اپنی ‏نرگسی انا کی پہلی شکست سے دوچار ہوا، یعنی ایک قتالہ ‏لڑکی کی محبت میں گرفتار ہوا۔ دوسرا حادثہ یہ تھا کہ میں ‏نے پہلا شعر کہا:‏
چاہ میں اس کی طمانچے کھائے ہیں
دیکھ لو سرخی مرے رخسار کی"[1]
جون اپنے لڑکپن میں بہت حساس تھے۔ ان دنوں ان کی کل ‏توجہ کا مرکز ایک خیالی محبوب کردار صوفیہ تھی، اور ان ‏کے غصے کا نشانہ متحدہ ہندوستان کے انگریز قابض تھے۔ وہ ‏ابتدائی مسلم دور کی ڈرامائی صورت میں دکھاتے تھے جس ‏وجہ سے ان کے اسلامی تاريخ کے علم کے بہت سے مداح ‏تھے۔ جون کے مطابق ان کی ابتدائی شاعری سٹیج ڈرامے کی ‏مکالماتی فطرت کا تاثر تھی۔
ایلیا کے ایک قریبی رفیق، سید ممتاز سعید، بتاتے ہیں کہ ایلیا ‏امروہہ کے سید المدارس کے بھی طالب علم رہے۔ یہ مدرسہ امروہہ میں اہل تشیع حضرات کا ایک معتبر مذہبی مرکز رہا ہے۔چونکہ جون ایلیا خود شیعہ تھے اسلئے وہ اپنی شاعری میں جابجا شیعی حوالوں کا خوب استعمال کرتے تھے۔حضرت علی کی ذات مبارک سے انہیں خصوصی عقیدت تھی اور انہیں اپنی سیادت پر بھی ناز تھا۔۔ سعید کہتے ہیں، "جون کو زبانوں ‏سے خصوصی لگاؤ تھا۔ وہ انہیں بغیر کوشش کے سیکھ لیتا تھا۔ ‏عربی اور فارسی کے علاوہ، جو انہوں نے مدرسہ میں سیکھی تھیں، ‏انہوں نے انگریزی اور جزوی طور پر عبرانی میں بہت مہارت ‏حاصل کر لی تھی۔"‏
 

نیلم

محفلین
پاکستان آمد:
اپنی جوانی میں جون کمیونسٹ خیالات رکھنے کی وجہ سے ‏ہندوستان کی تقسیم کے سخت خلاف تھے لیکن بعد میں اسے ایک ‏سمجھوتہ کے طور پر قبول کر لیا۔ ایلیا نے 1957ء میں پاکستان ‏ہجرت کی اور کراچی کو اپنا مسکن بنایا۔ جلد ہی وہ شہر کے ادبی ‏حلقوں میں مقبول ہو گئے۔ ان کی شاعری ان کے متنوع مطالعہ کی ‏عادات کا واضح ثبوت تھی، جس وجہ سے انہیں وسیع مدح اور ‏پذیرائی نصیب ہوئی۔

جون ایک انتھک مصنف تھے، لیکن انھیں اپنا تحریری کام شائع ‏کروانے پر کبھی بھی راضی نہ کیا جا سکا۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ‏شاید اس وقت شائع ہوا جب ان کی عمر 60 سال کی تھی۔ ‏نیازمندانہ کے عنوان سے جون ایلیا کے لکھے ہوئے اس کتاب کے پیش ‏لفظ میں انہوں نے ان حالات اور ثقافت کا بڑی گہرائی سے جائزہ لیا ‏ہے جس میں رہ کر انہیں اپنے خیالات کے اظہار کا موقع ملا۔ ان کی ‏شاعری کا دوسرا مجموعہ یعنی ان کی وفات کے بعد 2003ء میں ‏شائع ہوا اور تیسرا مجموعہ بعنوان گمان 2004ء میں شائع ہوا۔
جون ایلیا مجموعی طور پر دینی معاشرے میں علی الاعلان نفی ‏پسند اور فوضوی تھے۔ ان کے بڑے بھائی، رئیس امروہوی، کو ‏مذہبی انتہا پسندوں نے قتل کر دیا تھا، جس کے بعد وہ عوامی ‏محفلوں میں بات کرتے ہوئے بہت احتیاط کرنے لگے۔
جون ایلیا تراجم، تدوین اس طرح کے دوسری مصروفیات میں بھی ‏مشغول رہے۔ لیکن ان کے تراجم اور نثری تحریریں آسانی سے ‏دستیاب نہيں۔ ‏
فلسفہ، منطق، اسلامی تاریخ، اسلامی صوفی روایات، اسلامی ‏سائنس، مغربی ادب اور واقعۂ کربلا پر جون کا علم کسی ‏انسائکلوپیڈیا کی طرح وسیع تھا۔ اس علم کا نچوڑ انہوں نے اپنی ‏شاعری میں بھی داخل کیا تا کہ خود کو اپنے ہم عصروں سے نمایاں ‏کر سکيں۔
 

غ۔ن۔غ

محفلین
جون ایلیا کی ایک یادگار غزل سے میری پسند کے اشعار

تم حقیقت نہیں ہو حسرت ہو
جو ملے خواب میں وہ دولت ہو

میں تمھارے ہی دم سے زندہ ہوں
مر ہی جاؤں جو تم سے فرصت ہو

کس طرح چھوڑ دوں تمھیں جاناں
تم میری زندگی کی عادت ہو

کس لیے دیکھتی ہو آئینہ
تم تو خود سے بھی خوبصورت ہو

داستاں ختم ہونے والی ہے
تم میری آخری محبت ہو
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
جب تری جان ہو گئی ہو گی
جان حیران ہو گئی ہوگی

شب تھا میری نگاہ کا بوجھ اس پر
وہ تو ہلکان ہو گئی ہوگی

اس کی خاطر ہوا میں خار بہت
وہ میری آن ہو گئی ہو گی

ہو کے دشوار زندگی اپنی
اتنی آسان ہو گئی ہوگی

بے گلہ ہوں میں اب بہت دن سے
وہ پریشان ہو گئی ہوگی

اک حویلی تھی دل محلے میں
اب وہ ویران ہو گئی ہوگی

اس کے کوچے میں آئی تھی شیریں
اس کی دربان ہو گئی ہوگی

کمسنی میں بہت شریر تھی وہ
اب تو شیطان ہو گئی ہوگی
 
Top