احمد وصال
محفلین
غزل
آج اُس کو اُس کے جیسا وہی پر دکھا دیا
آئینہ اس کے ہاتھ میں لا کر تھما دیا
وہ سنگ دل بنا تو بنے بت تراش ہم
اپنے ہنر سے پیار کا رستہ بنا دیا
گرچہ ہوا بھی تیز ہے پھر بھی ہے حوصلہ
رکھا ہوا ہے کھڑکی میں جلتا ہوا دیا
اب شہر بھر کی نفرتوں کا خود شکار ہے
جس نے محبتوں کا سلیقہ سکھا دیا
نکلی ہے سینہ چیر کے دیکھو گلاب کی
جب راستوں پہ خوشبو کے پہرہ بٹھا دیا
اچھی نہیں ہے دشمنی اتنی ہواؤں سے
مختاج ہے ہوا کا یہاں پر دیا دیا
احمد اداسی دیکھ نہ پائے کہیں کوئی
چہرے پہ ہم نے خول خوشی کا چڑھا دیا
احمد وصال
آج اُس کو اُس کے جیسا وہی پر دکھا دیا
آئینہ اس کے ہاتھ میں لا کر تھما دیا
وہ سنگ دل بنا تو بنے بت تراش ہم
اپنے ہنر سے پیار کا رستہ بنا دیا
گرچہ ہوا بھی تیز ہے پھر بھی ہے حوصلہ
رکھا ہوا ہے کھڑکی میں جلتا ہوا دیا
اب شہر بھر کی نفرتوں کا خود شکار ہے
جس نے محبتوں کا سلیقہ سکھا دیا
نکلی ہے سینہ چیر کے دیکھو گلاب کی
جب راستوں پہ خوشبو کے پہرہ بٹھا دیا
اچھی نہیں ہے دشمنی اتنی ہواؤں سے
مختاج ہے ہوا کا یہاں پر دیا دیا
احمد اداسی دیکھ نہ پائے کہیں کوئی
چہرے پہ ہم نے خول خوشی کا چڑھا دیا
احمد وصال